پانی پر جنگ چھڑ سکتی ہے!

1094

’’پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازع پر جنگ چھڑ سکتی ہے‘‘۔ یہ بات پاکستان کا کوئی سیاستدان یا تجزیہ کار نہیں کہہ رہا بلکہ ایک سابق امریکی سفیر مسٹر کیمرون منٹر کہہ رہے ہیں جو پچھلے دنوں اسلام آباد میں ’’اسٹرٹیجک خطرات اور ردعمل‘‘ کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اپنے ملک کے سفیر کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کو درپیش مسائل سے امریکا کو آگاہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور اس کی فصلوں کا انحصار دریائی پانی پر ہے، ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کی ضرورت اُس وقت پیش آئی جب بھارت پاکستان آنے والے دریائوں کا پانی بند کرنے لگا اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اس کشیدگی کو دور کرنے کے لیے عالمی برادری متحرک ہوئی اور 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت 188 ملین ایکڑ فٹ پانی جو سندھ طاس کے ذریعے دریائوں میں آتا تھا پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا اور 80 فی صد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہے اور سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کی مکمل دسترس تسلیم کی گئی، جب کہ بھارت کو راوی، ستلج اور بیاس کا پانی استعمال کرنے کا اختیار دیا گیا۔ جو دریا پاکستان کے تصرف میں دیے گئے وہ سب کے سب مقبوضہ کشمیر سے آتے ہیں۔ یہ خطہ چوں کہ بھارت کے کنٹرول میں ہے اس لیے اسے بھی ان دریائوں سے 3 اعشاریہ 8 ملین ایکڑ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود پیمانے پر آب پاشی اور بجلی پیدا کرنے کی اجازت دی گئی لیکن بھارت نے اس محدود اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ وہ پاکستان کے تینوں دریائوں پر 15 سے زیادہ ڈیم بنا چکا ہے جب کہ مزید 61 ڈیمز بنانے کی تیاری کررہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جن دریائوں پر آبپاشی کے 30 سے زیادہ منصوبے بھی مکمل کرچکا ہے۔ یہ سارا بیان سابق امریکی سفیر کا ہے جس میں انہوں نے کھل کر تسلیم کیا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں اُڑا رہا ہے لیکن کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔ حالاں کہ یہ معاہدہ امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں ہوا تھا اور عالمی بینک کو اس معاہدے کا ضامن بنایا گیا تھا۔ معاہدے میں بھارت کو زیادہ سے زیادہ رعایتیں دی گئی تھیں اور پاکستان کی حق تلفی کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ معاہدہ منظر عام پر آیا تو اپوزیشن لیڈروں نے اس کی شدید مخالفت کی اور اُس وقت کے فوجی حکمران صدر جنرل ایوب خان پر الزام لگایا کہ انہوں نے امریکا کے دبائو میں آکر پاکستان کے مفادات سے غداری کی ہے اور پاکستان کو بھارت کے رحم و کرم پر ڈال دیا ہے۔
بہرکیف سندھ طاس معاہدے میں لاکھ خامی سہی، پاکستان کی کوئی حکومت بھی بھارت سے اس پر عمل نہ کرواسکی اور بھارت ابتدا ہی سے من مانی کرتا رہا، اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے دونوں ملکوں میں باقاعدہ سندھ طاس کمیشن قائم کیے گئے تھے، پاکستان میں سندھ طاس کمیشن کا کردار ہمیشہ مشکوک رہا۔ اس نے پاکستانی حکومتوں کو بھارت کی خلاف ورزیوں سے بے خبر رکھا۔ اس کے سربراہ اور ارکان بھارت کا دورہ کرکے دعوتیں اُڑاتے رہے اور واپسی پر ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دیتے رہے۔ جن تین دریائوں راوی، ستلج اور بیاس کو بھارت کے کنٹرول میں دیا گیا تھا ان کا پانی روکنے کا بھی بھارت کو اختیار نہ تھا لیکن بھارت نے ان تینوں دریائوں پر آبپاشی اور آبی ذخائر کے بڑے بڑے منصوبے بنا کر پاکستان کو اِن دریائوں
کے پانی سے بالکل محروم کردیا۔ اب ان دریائی گزرگاہوں میں ریت اُڑتی ہے اور اردگرد کی ہزاروں ایکڑ زرخیز زمینیں بنجر ہوگئی ہیں۔ البتہ سیلاب کے زمانے میں بھارت ان دریائوں میں بغیر اطلاع کے پانی چھوڑ کر پنجاب کے سیکڑوں دیہات کو زیر آب کردیتا ہے لیکن پاکستان نے کبھی نہ پانی روکنے پر احتجاج کیا، نہ بلا اطلاع سیلابی پانی چھوڑنے پر بھارت کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ پاکستان کی اس خاموشی سے شہہ پا کر بھارت نے پاکستان کے 3 دریائوں سندھ، جہلم اور چناب پر بھی تیزی سے ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا اور جیسا کہ سابق امریکی سفیر نے بتایا ہے کہ وہ ان دریائوں پر 15 بڑے ڈیم تعمیر کرچکا ہے جن میں سے بعض پر پاکستان نے احتجاج بھی کیا ہے اور اپنا مقدمہ لے کر عالمی بینک میں بھی گیا ہے لیکن اس کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بالآخر پاکستان نے خاموشی اختیار کرلی۔ اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارت نے اربوں ڈالر کی لاگت سے دریائے سندھ کا رُخ موڑنے کا منصوبہ بنایا ہے جس پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ یہ واحد دریا ہے جس پر پاکستان کا مکمل اختیار تسلیم کیا گیا تھا اور پاکستان میں آبپاشی اور بجلی کی پیداوار کے تمام تر منصوبے اسی دریا سے وابستہ ہیں لیکن بھارت نے دریائے سندھ کا پانی بھی بڑی حد تک روک لیا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں اس کی گزرگاہ خشک ہوجائے گی اور اس میں ریت اُڑنے لگے گی۔
بھارت پاکستان کو پانی کی بوند بوند سے ترسانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بھارتی لیڈر اس کا بار بار اظہار کرچکے ہیں۔ پاکستانی حکومتیں ابتدا ہی سے پانی کے مسئلے پر غیر سنجیدگی اور بے توجہی کا مظاہرہ کرتی چلی آرہی ہیں۔ صرف جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے دور میں منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم جیسے بڑے آبی ذخائر تعمیر ہوئے۔ کالا باغ ڈیم کا بلیو پرنٹ بھی اسی دور میں تیار ہوا تھا لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے اسے سیاسی ایشو بنادیا اور اس پر کام شروع نہ ہوسکا۔ کالا باغ ڈیم منصوبے کی افادیت بدستور برقرار ہے لیکن گزشتہ 40 سال کے دوران اس پر اتنی گرد اُڑائی گئی ہے اور بھارت نے اس منصوبے کے مخالفین پر اتنی سرمایہ کاری کی ہے کہ پاکستان کے لیے یہ منصوبہ ایک ڈرائونا خواب بن گیا ہے۔ اب تو کالا باغ ڈیم کا نام لیتے ہوئے بھی لوگوں کو ڈر لگتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے زمانے میں بھاشا ڈیم کا بڑا چرچا ہوا اس کے لیے فنڈز جمع کرنے کی مہم بھی شدومد سے چلائی گئی لیکن جسٹس ثاقب نثار کے اپنے منصب سے سبکدوش ہوتے ہی یہ دفتر بھی لپیٹ کر رکھ دیا گیا۔ پانی کا مسئلہ کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ موجودہ حکومت تو اپنے تضادات میں اس قدر اُلجھی ہوئی ہے کہ وہ پانی کے بحران پر ذرا سی توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ ہماری نااہلی اور بے حسی کے نتیجے میں خدانخواستہ پاکستان پر ایک وقت ایسا آسکتا ہے جب بھارت اس کی آبی ناکہ بندی کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوجائے اور ’’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ کے مصداق پاکستان کو اپنی جان بچانے کے لیے بھارت کے خلاف آمادئہ جنگ ہونا پڑے۔ امریکیوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ پانی کے مسئلے پر بالآخر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ پانی آخر کہاں سے آرہا ہے؟ پاکستان آنے والے تمام دریائوں کو منبع کشمیر میں ہے شاید اسی لیے قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ پاکستان کو اپنی شہ رگ بھارت سے چھڑانے کی فکر کرنی چاہیے۔ اس کے لیے جنگ بھی لڑنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ بہرحال ناگزیر ہے۔ حالات گواہی دے رہے ہیں کہ آج نہیں تو کل یہ جنگ ہو کر رہے گی۔ پاکستان اس جنگ سے جس قدر اپنا دامن بچائے گا اسی قدر اپنے وجود کو خطرے میں ڈالے گا۔