جنگ کی پیش گوئی مگر کس سے؟

1337

5فروری کو یوم کشمیر کے موقع پر کشمیر یکجہتی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے پیش گوئی فرمائی ہے کہ مقبوضہ کشمیر اب آزاد ہونے والا ہے۔ ہمیں تو یہ پیش گوئی، پیش گوئی سے زیادہ کشف و الہام کی بات لگتی ہے کیوں کہ پیش گوئی کی بنیاد کچھ ایسے آثار و قرائن پر ہوتی ہے جو عامتہ الناس (آسان اردو میں پبلک) کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں لیکن کسی صاحب بصیرت کی دور رس نظر پر اسی طرح واضح ہوجاتے ہیں جس طرح مشرقی افق سے جھانکتے ہوئے سورج کی کرنیں زمین پر اترنے سے قبل مساجد کے میناروں پر چمک ڈالتی ہیں۔ مثال کے طور پر 1930ء کو الٰہ آباد میں کل ہند مسلم لیگ کے جلسے کی صدارت کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے پیش گوئی کی تھی کہ اگر ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، مسلمان ریاستیں قائم نہیں ہوجاتیں تو برصغیر میں مسلمانوں کے وجود و بقا کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ الحمد وہ ضمانت پاکستان کی شکل میں میسر آگئی اور وہ پیش گوئی جسے خود علامہ نے ایک شاعر کے خواب کا نام دیا تھا آج بھارتی ہندوئوں کے مسلم دشمن رویے کی روشنی میں صد فی صد درست نظر آرہی ہے ۔ بات یہ تھی کہ علامہ اقبالؒ ہندو کی چانکیائی سیاست اور برہمنی ذہنیت کا شعور و ادراک رکھتے تھے یعنی ہمارے الفاظ میں آثار و قرائن پر اُن کی دور رس نظر تھی لیکن ہمارے وزیراعظم کو وہ کون سے آثار و قرائن نظر آگئے جن کے تحت انہوں نے پیش گوئی فرمائی ہے کہ اب کشمیر آزاد ہونے والا ہے۔ آیا یہ آثار مودی حکومت کے 5 اگست کے فیصلے میں نظر آئے یا قائد حریت کے ایس او ایس (ہماری جانیں بچائو) پر مشتمل عالم آشکار خطوط میں یا سرحد پار سے نہتے عوام پر کی جانے والی جارحیت میں یا کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کردینے کے بھارتی حکومت کے اعلان میں یا پھر بھارتی سینا کے سربراہ کے اس دعوے میں کہ اگر حکومت فیصلہ کرے تو وہ ایک دن میں آزاد کشمیر پر قبضہ کرسکتا ہے۔
عمران خان کی یہ پیش گوئی سن کر کسی مزاح گو شاعر کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
اعجاز تصور سے بے وصل کے عاشق کو
آغوش میں جاناں کے بچہ نظر آتا ہے
گزشتہ دنوں صاحب خبر و نظر کالم نگار جناب آصف جیلانی نے ایوب خان سے لے کر نواز شریف تک پاکستان کے جملہ حکمرانوں کی کشمیر کے کاز سے غداری اور کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی جو چشم کشا تفصیل دی ہے عمران خان کا رویہ بھی عملاً اس سے مختلف نہیں جب وہ ریلی کے سامنے اعلان تو بچے بچے کے کٹ مرنے کا فرماتے ہیں لفظ جہاد کے نام سے ان کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔ کشمیر کے مظلوموں کے دو جرأت مند مسلمان حکمرانوں مہاتیر محمد اور اردوان کے ساتھ بیٹھنے کے تصور سے وہ اس طرح گریزاں ہوتے ہیں جیسے کعبے سے کافر۔ اگر جماعت اسلامی کے لوگ چکوٹھی (متنازع علاقے کی سرحد) کا رُخ کرنے اور وہاں پر جمع ہو کر احتجاج بھی ریکارڈ کرانے اور مظلوموں سے ہمدردی کا اعلان بھی کریں تو عمران خان تَوَحُّش کے عالم میں تنبیہ فرماتے ہیں کہ جو بھی ایسا کرے گا وہ وطن کا غدار ہوگا۔ آپ اعترافی مجرم کلبھوشن کو ہتھیلی کا پھپھولا بنائے ہوں اور پاکستان کی سرحد پار کرکے آنے والے پائلٹ ’’ابے‘‘ سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ ابے! گیدڑ تو نے شہر کا رُخ کس خیال سے کیا تھا، پورے تزک و احترام سے بھارت کو واپس کردیتے ہیں کہ اس کی اچھی طرح تربیت کرکے دوبارہ بھیجو۔ اور مقبول بٹ اور افضل گرو کو بلا جرم پھانسی دو ہمیں اس سے غرض نہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جب محب وطن سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارلیمنٹ میں بھارت کے خلاف مناسب اقدام کا مطالبہ سامنے آیا تھا تو موصوف نے کمال جھنجھلاہٹ سے فرمایا تھا کہ کیا جنگ چھیڑ دوں۔ انہیں کہنا چاہیے تھا اب بیک وقت دو محاذ تو کھولنے سے رہا۔ جہاں تک جنگ چھیڑنے کا تعلق ہے تو ریاست مدینہ میں سودی نظام نافذ کرکے جنگ چھیڑی تو ہوئی ہے۔ گویا جو آسان جنگ تھی خدا اور رسول سے وہ تو کررہا ہوں اور اس کے نتیجے میں کامیابی کی نوید بھی سنا رہا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس جنگ کی نحوست نے اہل وطن کی زندگی کو موت کے مصداق بنادیا ہے جن کی بددعائیں بالآخر رنگ لا کر رہیں گی اور عمران خان کی یہ دلپزیر تقاریر علامہ اقبالؒ کے اس مصرعے کی نقل ہی نظر آئے گی کہ ’’گفتار کا غاری بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا‘‘
دعویٰ یہ ہے کہ بھارت نے حملہ کیا تو پاکستان کا بچہ بچہ کٹ مرے گا۔ سبحان اللہ!
آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم!
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم
کشمیر کاز سے پسپائی تو یہ اس جملے کو یہ معنی پہنا رہی ہے کہ کشمیر کا بچہ بچہ کٹ مرے تو ہمیں کیا۔ ہم تو فی الوقت خدا اور رسول کے ساتھ اینگیج ہیں۔ وہ بھول رہا ہے کہ وہ مکرو! و مکراللہ واللہ خیرالماکرین (وہ بھی اپنی تدبیر کررہے ہیں اور خدا بھی اپنی تدبیر کررہا ہے اور خدا تمام تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔