مودی سرکار مظاہرین کو وباء سے ڈرانے میں بھی ناکام

336

نئی دہلی (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافے کے مدنظر حکومتی انتباہ کے باوجود دہلی کے شاہین باغ میں خواتین نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ منفرد نوعیت کے اس مظاہرے میں شامل خواتین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مقابلے میں ’’سی اے اے‘‘ قانون کہیں زیادہ خطرناک ہے، کیوں کہ یہ وبا تو کچھ عرصے میں ختم ہوجائے گی، تاہم متنازع قانون آنے والی نسلوں کو تباہ کردے گا۔ کورونا وائرس کے پیش نظر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کسی مقام پر 50 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگائی ہے۔ اس حکم کے مدنظر دہلی پولیس کے اعلیٰ افسران نے شاہین باغ جاکر مظاہرین کو اپنی تعداد محدود کرنے کی درخواست کی اورایسا نہ کرنے پر قانونی کارروائی کی دھمکی بھی دی، لیکن خواتین نے ان کی اپیل مسترد کردی۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے دھرنے میں موجود شبانہ شاہین نامی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ہمارے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ کسی ایک جگہ پر 50 سے زائد افراد جمع نہ ہوں، لیکن پارلیمان کے بارے میں وہ کیا کہیں گے، جہاں ان دنوں اجلاس جاری ہے یا پھرشادی کی تقریبات کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ خیال رہے کہ مظاہرے میں شریک بیشتر خواتین نے اپنے نام کے ساتھ شاہین باغ کی مناسبت سے شاہین کا لاحقہ لگالیا ہے۔ دہلی اور مرکزی حکومت کے رویے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے شبانہ کا کہنا تھا کہ ہم پر پیسے لے کر دھرنا میں شریک ہونے کا بیہودہ الزام لگایا گیا، فسادات کے ذریعے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی گئی اور اب کورونا وائرس کا حوالہ دے کر حکومت ہمیں خاموش کرانا چاہتی ہے، لیکن ہم حکومت کی اس کوشش کو بھی ناکام بنادیں گے۔ انہوں نے سوال کیا کیا کہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ شمال مشرقی دہلی میں حالیہ فسادات کے بعد عارضی کیمپوں میں سیکڑوں کی تعدا دمیں رہنے کے لیے مجبور پناہ گزینوں کو کورونا وائرس متاثر نہیں کرے گا؟ خیال رہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض رہنماؤں کی طرف سے سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف دیے گئے مبینہ اشتعال انگیز بیانات کے بعد گزشتہ ماہ دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، جس میں 50 سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔ ایک درجن سے زائد مساجد کے علاوہ سیکڑوں مکان اور دکانیں نذر آتش کردی گئیں۔ اب بھی کئی ہزار افراد عارضی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ صفیہ نامی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ہمیں کورونا وائرس اور سی اے اے دونوں ہی سے لڑنا ہے۔ اس لڑائی میں ہمارے لیے سی اے اے کورونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔