لاک ڈائون سرحدوں پر کریں

666

پاکستان تحریک انصاف کے بااثر رہنمااور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری نے اس امر کی تردید کی ہے کہ انہوں نے ایران سے آنے والے زائرین کو تفتان میں قرنطینہ کیے جانے سے روکنے کے لیے اثر و رسوخ استعمال کیا ۔ گزشتہ دنوں ایران سے آنے والے تقریبا آٹھ سو افراد کوکلیئر قرار دے کر ان کے گھروں کو براہ راست روانہ کردیا گیا تھا ۔ یہ لوگ اب کہاں ہیں ، کسی کو نہیں معلوم تاہم انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بغیر قرنطینہ کیے ان افراد کو کلیئر کرنے کی وجہ سے پورے ملک میں کورونا وائرس اچانک پھیلنے لگا ۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے درست توجہ دلائی ہے کہ حکومت نے چین میں پھنسے پاکستانی طلبہ کو تو وطن واپس لانے سے صاف انکار کردیا مگر ایران سے قافلے کے قافلے بلا روک ٹوک پاکستان میں آرہے ہیں ۔ اگر حکومت چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طلبہ و طالبات کو پاکستان واپس لے آتی اور انہیں 14 دن تک قرنطینہ میں رکھ کر اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے دیتی تو اس میں کیا قباحت تھی ۔ مگر حکومت نے چین میں پھنسے ہوئے طلبہ و طالبات کو لانے میں باقاعدہ ضد کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح اگر تفتان سے آنے والے ہر زائر کو بلا تخصیص قرنطینہ میں رکھا جائے تو اس سے بھی ملک میں کورونا کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک ملک میں کورونا کا ایک بھی ایسا مریض سامنے نہیں آیا ہے جسے کسی دوسرے مریض سے یہ مرض لگا ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سرحدوں پر سختی کرلی جائے اور خصوصی طور پر ایران سے آنے والے زائرین کی بلاتخصیص اسکریننگ کی جائے تو ملک کے کسی بھی حصے کے لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔موجودہ حالات کودیکھتے ہوئے سندھ میں کیے جانے والے لاک ڈاؤن کو بھی غیر ضروری ہی کہا جاسکتا ہے ۔ ابھی تک حالات مکمل طور پر قابو میں ہیں ۔ سندھ کے مقابلے میں پنجاب میں زیادہ ایران سے زائرین آئے ہیں مگر وہاں پر کوئی خوف و ہراس نہیں ہے۔، اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھ میں حالات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ سیدمراد علی شاہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جن کی وجہ سے لوگ غربت کے باعث خودکشی پر مجبور ہوجائیں ۔ سید مراد علی شاہ کی جانب سے کیے جانے والے غیر معمولی اقدامات کے نتیجے میں سندھ میں لاکھوں افراد بیروزگاری کا شکار ہوگئے ہیں ، سندھ حکومت کے پاس ایسے لوگوں کے لیے کیا مداوا ہے ۔عوام کو وزیر اعظم کے خطاب سے انتہائی امید تھی کہ وہ پاکستان کے عوام کے لیے ریلیف کا اعلان کریں گے ۔ مگر اس خطاب سے ’’عوام کو گھبرانا نہیں ہے‘‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں ملا۔ انہوں نے جو باتیں کی ہیں وہ یا تو مہمل تھیں یا پھر خوفزدہ کرنے والی ۔ وزیر اعلیٰ سندھ تو وفاق سے کئی قدم آگے ہیں ۔انہوں نے تو وہ اقدامات بھی کردیے ہیں جن کی اس وقت صوبے میں کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سید مراد علی شاہ پابندیاں لگانے میںکسی سے ریس لگا رہے ہیں ۔ ان کے اقدامات سمجھ میں نہ آنے والے ہیں ۔ مثال کے طور پر سرکاری دفاتر تو بند کردیے گئے ہیں مگر نجی دفاتر کھلے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کورونا وائرس محض سرکاری دفاتر میں آنے والوں کو نشانہ بناتا ۔ اسی طرح گلی محلے میں قائم بازار تو اب پہلے سے زیادہ پرہجوم ہو گئے ہیں تو کیا ان بازاروں میں کورونا کی وبا پھوٹ پڑی ہے ۔کراچی کے پرانے علاقوں میں چھوٹی ، تنگ و تاریک بلڈنگوں میں واقع ایک ایک فلیٹ میں کئی کئی خاندان رہتے ہیں اور اب کاروباری سرگرمیاں بند ہونے کی وجہ سے سارے لوگ ہی گھروں پر ہیں جس کی وجہ سے یہ علاقے پہلے سے زیادہ پرہجوم ہوگئے ہیں ، تو کیا ان علاقوں میں کورونا پھیل گیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ سندھ میں غیر ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ جس طرح عمران خان نیازی کی بطور وزیر اعظم یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے مفاد میں درست فیصلہ کریں اسی طرح سید مراد علی شاہ کی بھی بطور وزیر اعلیٰ سندھ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خوف و ہراس پھیلانے کے بجائے سندھ میں بسنے والوں کے حق میںمناسب فیصلے کریں ۔