کورونا کے اثرات چند تجاویز

900

اعظم علی
ابھی تو خوف ہی آیا ہے آزمائش کو
اب اس کے بعد یہاں بھوک آنے والی ہے
ہمارے دوست سلمان صدیقی سے معذرت کے ساتھ کہ ان کے خوبصورت شعر میں تھوڑا سا تصرف کرنا پڑا۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس کے ممکنہ عواقب آہستہ سامنے آرہے ہیں، کئی ممالک میں مختلف شہر لاک ڈاؤن کر دیے گئے جن میں چین، سعودی عرب، فلپائن اور جنوبی کوریا کے شہر شامل ہیں۔ ابھی تک تو ہمارے ہاں الحمدللہ فی الحال ایسی صورتحال محسوس نہیں ہورہی کہ ہمارے بڑے شہروں میں ایسا ہو لیکن اس امکان کو صریحاً رد نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رہے جنوبی کوریا اور اٹلی میں چند ہفتوں پہلے تک صرف 30 مریض تھے جن کی تعداد چند ہفتوں کے اندر ہی اٹلی میں 25ہزار سے تجاوز اور جنوبی کوریا میں آٹھ ہزار سے زائد پہنچ گئی۔ ایران بھی 22 فروری تک صرف 82 مریض اور پانچ اموات ہوئی تھیں تھے جو تین ہفتوں میں 51ہزار مریضوں اور 853 اموات کے ساتھ اس مرض کا پوری دنیا میں تیسرا بڑا مرکز بن چکا ہے۔ فرانس نے اعلان کیا ہے کہ لوگ دوکانیں، ناچ گاہیں، ریسٹورنٹس و تفریح گاہیں بند کر کے گھروں میں بیٹھیں اور بلا ضرورت باہر نہ نکلیں۔ یعنی تقریباً لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ اسپین نے بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا ہے یہ سب کچھ خطرے کی گھنٹیاں ہیں جو روز بروز تیز ہوتی جارہی ہیں۔ ملائشیا نے بھی 18 مارچ سے 31 مارچ تک کے لیے پورا ملک لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ سپر مارکیٹ اور گروسری کی دوکانیں، لازمی سروس موبائل فون، مواصلات، اسپتال، پانی بجلی کی کمپنیاں ائر پورٹ، صفائی کے اور خور ونوش کی ترسیل کے سوا سارے سرکاری و پرائیویٹ دفاتر بند ہوں گے۔ اس دوران ملائشین ملک سے باہر سفر نہیں کرسکتے اور کوئی غیرملکی بھی ملائشیا میں داخل نہیں ہو سکتا۔
اگر ہمارے ہاں لاک ڈاؤن کی صورتحال پیش آئی تو ملکی معیشت کے ساتھ جو بھی ہوگا سو ہوگا۔ لیکن یہ بڑے شہروں بالخصوص کراچی کے محنت کش وغریب طبقے کے عوام کو لے بیٹھے گا۔کیا وہی تنخواہیں جن میں مہینے کا آخری ہفتہ فاقے سے بمشکل بچ کر گزرتا ہے ضروریات زندگی کی چار گنا قیمتوں کا متحمل ہو سکتا ہے؟؟ جب تنخواہ دار ہی مصیبت میں ہوگا تو روز مرہ دیہاڑی دار طبقے کا ذکر ہی کیا؟ کیا یہ حکومتیں عوام کو ضروریات زندگی کو یکساں قیمتوں پر فراہم کرنا یقینی بنا سکتی ہیں؟ یہ بات کسی قسم کا خوف پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں ہورہا ہے اور ہو چکا ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے خطرہ ٹل نہیں جائے گا۔ بہتر ہے کہ ہمت و حوصلے کے ساتھ خطرے کا ادراک کرکے اس کے مقابلے کی تیاری کی جائے۔ ہمیں اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا علم ہے جس میں خود غرضی اور کاروباری طبقے کا منافع خوری کا غیر انسانی حد تک لالچ بھی شامل ہے۔ اس کے نتائج ہماری سوسائٹی کے کمزور ترین طبقے کو بھگتنے ہیں لیکن باقی لوگ بھی خاموش تماشائی نہ رہ پائیں گے جب محلے کی جھگیوں میں آگ لگے گی تو آس پاس کے محلات اگر جل نہیں پائے تب بھی آگ کی حدت و دھویں کی سیاہی سے نہیں بچ سکیں گے۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ لوگ محلات میں سکون کی نیند لے سکیں جب پڑوس کی جھونپڑی میں بچّہ بھوک سے رو رہا ہو۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنے آس پاس کے غریب طبقے کے پیٹ کی آگ بجھانے کا انتظام کریں یہ دین کا حکم بھی ہے اور دنیاوی مصلحت کا تقاضا بھی۔ اللہ کی راہ میں اپنے غریب دوستوں و پڑوسیوں کی مدد کے لیے خرچ ہونے والا ایک ایک روپیہ قیمتی ہے لیکن اس پیسے کو غریب و ضرورت مندوں کی مدد کے لیے خرچ ہونے کے بجائے لالچی کاروباری لوگوں کی تجوریوں میں جانے سے روکنے کی بھی سخت ضرورت ہے تاکہ یہ رقم زیادہ سے زیادہ ضروت مندوں کے کام آئے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ضروریات زندگی کی قیمتوں کے اضافے کے رجحان کو روکنے کی کوشش کی جائے۔ تاکہ اگر بوجھ کم نہ ہو تو اضافہ بھی نہ ہو سکے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتیں جو غیر حقیقی اور کاروباری افراد کی منافع خوری کی وجہ سے ہیں بوجھ میں اضافے کا سبب ہیں۔ اضافے کے اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی جائے۔
ہمارے ہاں مخیر افراد کی کمی نہیں ہے لیکن ابتدائی ضرورت یہ ہے کہ مختلف مخیر حضرات اور خوف خدا رکھنے والے تاجروں اور ٹرانسپورٹروں سے ملکر ایسا کوئی فنڈ بنایا جائے جس میں ہر شخص رضاکارانہ طور پر بغیر منافعے کی سرمایہ کاری کرسکے جس میں صرف رقوم کی فراہمی ہی نہیں بلکہ مختلف شعبوں کے ماہرین اپنی مہارت بلکہ بشمول اشیاء کا بہتر قیمتوں پر حصول و ترسیل کے انتظامات اور اپنے مقام مقررہ پر پہنچا کر سوائے انتظامی اخراجات کے قیمت خرید پر عوام تک پہنچایا جاسکے۔ اس طریقے سے ناجائز منافع خوری پر ایک ضرب کاری لگا کہ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش اگر کامیاب ہوگئیں تو بازار میں قیمتوں میں گراوٹ کا سبب بھی بن سکے گی۔ اس آپریشن کے دوسرے حصے میں ضرورت مند فیملیوں کو زکواۃ کی مد میں بھی استعمال کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے سرمایہ کاروں کی رضامندی ضروری ہوگی۔ اس مہم میں کارپوریٹ اسپانسر شپ بھی حاصل کی جاسکتی ہے جس کے تحت تیل گھی اور دیگر کمپنیاں اپنی مصنوعات کو رعایتی قیمتوں پر فراہم کریں۔ حسن اتفاق سے ماہ رمضان بھی انتہائی قریب ہے اور اس ماہ کے دوران ویسے بھی لوگ معمول سے صدقات و خیرات زیادہ کرتے ہیں۔ اس مہم کو کوئی بھی مذہبی سیاسی و سماجی تنظیم شروع کرسکتی ہے کہ بادی النظر اس میں ابتدائی انوسٹمنٹ کے جو بڑی بڑی حدتک محفوظ ہو گی۔ عوام کی آسانیوں کے ساتھ اللہ پاک کی خوشنودی بھی حاصل ہوگی ان شاء اللہ اللہ پاک تمام مسلمانوں بالخصوص ہمارے وطن کے لوگوں کو تمام آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین