دنیا کے 10 مہلک ترین وائرس

1754

دنیا میں تو ویسے لاکھوں قسم کے وائرس ہیں جن میں سے کچھ کے منفی اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ  کچھ وائرس درمیانی درجے پر نقصان دہ ہیں یعنی احتیاطی تدابیر اور ہلکے پھلکے علاج سے ان وائرس کی بیخ کنی ہوسکتی ہے لیکن کچھ وائرس ایسے بھی ہیں جو انتہائی مہلک ہیں جن میں اموات کی شرح 90 فیصد تک ہے۔ دنیا کے 10 مہلک ترین وائرس کا ذکر بتدریج  ذیل میں کیا جارہا ہے:

1) ماربرگ وائرس

دنیا کا سب سے مہلک ترین وائرس ماربرگ ہے جس میں اموات کی شرح 90 فیصد تک ہے۔ اس وائرس کا نام جرمنی میں دریا لہن کے نزدیک ایک قصبے کے نام پر رکھا گیا ہے مگر وائرس کا تعلق بذات خود قصبے سے کوئی نہیں۔ وائرس کی علامات میں سب سے خطرناک علامت نکسیر بخار (Hemorrhagic fever) ہے جس میں وائرس خون کی شریانوں کو اس قدر کمزور کردیتا ہے کہ وہ پھٹ جاتی ہیں اور جسم کے اندر ہی خون خارج ہونے لگتا ہے۔ مزید براں یہ کہ یہ وائرس خون کے جمنے کی صلاحیت کو بھی ختم کردیتا ہے۔

2) ایبولا وائرس

ایبولا وائرس کا نام افریقہ میں ایک دریا ایبولا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس  وائرس کی پانچ قسمیں ہیں اور ہر قسم کا نام افریقہ کے مختلف خطوں یا ملکوں کے نام پر رکھا گیا ہے جس میں زائر، سوڈان، تائی فوریسٹ، بندی بوگیو اور ریسٹون شامل ہے۔ ان 5 قسموں میں سے جو سب سے زیادہ جان لیوا ہے وہ ہے زائر ایبولا وائرس۔ اس وائرس کے شکار ہونے والوں کی بھی اموات کی شرح 90 فیصد ہے۔ اس کی علامات بظاہر ڈینگی بخار جیسی ہوتی ہیں لیکن اس کے علاوہ الٹی آنا، دست آنا، خون کا اندرونی طور پر خارج ہونا، اور خارش ہونا بھی شامل ہے۔

3) ہنٹا وائرس

مہلک ترین وائرس کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہنٹا وائرس کا نام آتا ہے۔ اس وائرس کا نام جنوبی کوریا میں ایک دریا ہنٹا سے لیا گیا ہےجہاں اس وائرس نے 1950 میں پہلی مرتبہ  امریکہ اور ویتنام کی جنگ کے دوران امریکی افواج  کو اپنا شکار بنایا تھا اور ایک ہزار سےزائد فوجیوں کی جان لے لی تھی۔ اس کا شکار ہونے والوں میں پھیپڑوں کی بیماری، گردوں کی ناکامی اور بخا ر جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

4) برڈ فلو

چوتھے نمبر پر برڈ فلو ہے جس میں اموات کی شرح 70 فیصد ہے۔ یہ وائرس ایشیائی ممالک میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں پولٹری فارمز میں انسانوں اور پرندوں  کا غیر محفوظ  ربط  زیادہ ہوتا ہے۔ علامات میں شدید بخار، اعصاب کا شل ہونا ، سانس لینے میں دشواری، سردرد، کھانسی زکام اور دست آنا شامل ہے۔

5) لَسا وائرس

یہ وائرس مغربی افریقہ میں پایا جاتا ہے۔ اس وائرس سے سب سے پہلے متاثر ہونے والی ایک نرس تھی جو نائیجیریا میں اپنے فرائض انجام دے رہی تھی۔ لَساوائرس Endemic ہوتا ہے یعنی ایک مخصوص خطے کو متاثر کرتا ہے۔ یہ کترنے والے ایک جانور گوشت خور پھوڑا سے پھیلتا ہے جسے انگریزی میں (Rodents) کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی افریقہ میں پائے جانے والے (Rodents) میں سے 15 فیصد اس وائرس سے متاثر ہیں۔

6) جونِن وائرس

اس وائرس کی علامات میں بھی Argentina Hemorrhagic fever شامل ہے۔ یہ وائرس بھی گوشت خور پھوڑا جانور کی ایک قسم سے پھیلتا ہے جو ارجنٹیانا اور پیراگوئے میں پائی جاتی ہے اور اسی خطے کے نام پر اس وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کا نام رکھا گیا ہے۔ مزید براں یہ کہ یہ وائرس جسم کے اندرونی اعضاء کو شدید  نقصان پہنچاتا ہے۔ ٹشوز اور دیگر اعضاء میں انفیکشن پھیل جاتا ہے اور جِلد سے خون بھی بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ شروعاتی علامات سے اس وائرس کی تشخیص انتہائی مشکل ہے کیونکہ جو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ عام طور پر دوسری بیماریوں سے ملتی جلتی ہوتی ہیں۔

7) کریمیا کونگو وائرس

یہ وائرس ایک چھوٹے سے کیڑے  ‘چچڑی’ سے پھیلتا ہے جسے انگریزی میں Ticks  کہا جاتا ہے۔ کریمیا وائرس کی علامات بھی ماربرگ اور ایبولا وائرس جیسی ہوتی ہیں جس میں مریض کے منہ میں، چہرے کے اندر اور گلے میں خون بہنے لگتا ہے۔

8) ماچوپو وائرس

 

یہ وائرس (Bolivian Hemorrhagic Fever) کا سبب بنتا ہے جسے (black typhus) یا (Ordog fever) بھی کہا جاتا ہے۔ اس وائرس کے ذریعے انفیکشن پھیلتا ہے جو انتہائی درجے کے بخار اور خون کے اندرونی طور پر خارج ہونے کا سبب بنتا ہے جس کے باعث اموات کی شرح 5 سے 30 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں بھی پھیل سکتا ہے۔ انسانی جسم میں اس کی نمو کے مراحل جونِن وائرس کے مشابہہ ہوتے ہے۔

9) کیاسانور فوریسٹ وائرس

اس وائرس کی کھوج سب سے پہلے 1955 میں ہندوستان کے کیاسانور جنگل میں بیمار بندر میں ہوئی جس کے بعد سے ہر سال 400 سے 500 متاثرہ افراد  کےکیسز ہندوستان میں آنا شروع ہوئے۔ سائسندان اب تک اس وائرس کے پھیلنے کے صحیح اسباب کا اندازہ نہیں لگا پائے ہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھی چچڑی کیڑے سے پھیلتا ہے جبکہ دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ چوہوں، پرندوں، اور جنگلی سوؤروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ وائرس کا شکار ہونے والے افراد میں تیز بخار، سر میں درد اور اعصاب میں درد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جس کے باعث خون اندرونی طور پر رسنا شروع ہوجاتا ہے۔

10) ڈینگی

تھائی لینڈ اور ہندوستان میں ہر سال 5 سے 10 کروڑ افراد ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ وائرس ایک مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ علامات میں سے اچانک تیز بخار کا ہونا، سر میں شدید درد، آنکھوں میں درد ہونا، جوڑوں اور اعصاب میں درد، تھکاوٹ، جِلد خارش، متلی ہونا ہے۔ بخار کی شدت میں اگر اضافہ ہوتا رہا تو شریانوں کے پھٹنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے خون کا دورانیہ بری طرح سے متاثر ہوسکتا ہے۔ شدتِ مرض میں جگر کے طول و عرض میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔