عمارت گرنے کی ذمے داری کس پر ہے؟

600

کراچی میں جمعرات کے روز کراچی کے علاقے رضویہ سوسائٹی میں چھوٹے سے پلاٹ پر چھٹی منزل کی تعمیر کے دوران عمارت گرنے سے 18 افراد جاں بحق اور 30 سے زاید زخمی ہو گئے۔ اس عمارت کے گرنے سے دیگر وہ عمارتیں بھی متاثر ہوئیں۔ کراچی میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں عمارت گرنے سے لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہو۔ چند روز قبل بھی ایسا ہی واقعہ ہو چکا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی واقعے پر ذمے داروں کو سزا نہیں ہوئی۔ میڈیا سب سے پہلے بلڈر کو مجرم قرار دے کر معاملے کا رخ بدل دیتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بلڈر بھی مجرم ہے لیکن آج تک کسی سرکاری ادارے کو اس قسم کی غفلت کا مرتکب قرار ہی نہیں دیا گیا۔ اگر بلڈرز کو بیس پچیس لاکھ روپے لے کر غیر قانونی تعمیرات کی اجازت نہ دی جائے تو بلڈر بھی یہ کام نہیں کر سکے گا۔ کراچی پر پینتیس برس ایم کیو ایم کا قبضہ رہا اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر بھی جو کے بی سی اے تھی لیکن ایم کیو ایم کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی آنکھوں کے سامنے سندھ حکومت نے کراچی کے کئی اداروں پر کنٹرول حاصل کیا اور ان اداروں کا معیار پہلے سے بھی زیادہ خراب کر دیا گیا۔ کے بی سی اے میں پہلے بھی رشوت لی جاتی رہی ہے لیکن اب تو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں بھرتی ہی اس مقصد کے لیے کی جا رہی ہے کہ میرے علاقے کا بندہ ہے اسے بھی کچھ دنوں کے لیے موقع دے دیا جائے۔ عہدوں کی باقاعدہ قیمت لگتی ہے۔ یہی کام رجسٹرار آفس میں بھی ہو رہا ہے۔ جب کھلے عام رشوت لے کر ہر طرح کی تعمیر کی اجازت دے دی جائے گی تو عمارتیں گریں گی اور لوگ مریں گے بھی۔ حیرت تو اس امر پر ہے کہ سندھ اور مرکز کی عدالتوں کے مختلف ججز عدالت لگا کر کراچی کو پرانا کراچی بنانے اور غیر قانونی تعمیرات توڑنے کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ سخت ترین تبصرے بھی کرتے ہیں لیکن آج تک کراچی میں گرنے والی کسی عمارت پر اصل مجرموں اور ان شہری اداروں کے خلاف ایسی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی کہ پیسے لے کر بھی غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دینے والے کانپتے ہوں۔ یہ تو دیکھا گیا ہے کہ بلڈر فرار یا بلڈر گرفتار ہو جاتا ہے لیکن پھر کسی کو پتا نہیں چلتا کہ اس کا کیا بنا۔ اگر حکومت ہی کی نیت ٹھیک نہ ہو اور کراچی کے اس اہم ادارے پر کنٹرول ہی اس لیے کیا گیا ہو کہ یہاں سے کروڑوں روپے روز کی آمدنی ہوتی ہے تو پھر کسی اور کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ بہت سے بلڈرز جو حقیقتاً بلڈر مافیا ہیں کھلے عام کہتے پھرتے ہیں کہ عدالت بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہ لوگ تو غائب بھی ہو جاتے ہیں لیکن یہ شہری ادارے اور ان کے افسران تو موجود ہیں۔ اگر ریٹائر ہو گئے ہیں تو بھی ان کی پنشن جاری ہے ان کی موت کی صورت میں بیوہ اور بچوں کو بھی تلاش کرنا ہوگا۔ انسانی جان اتنی ارزاں تو نہیں کہ معاملے کو ہر مقدمے کی طرح گھما کر رکھ دیا جائے۔ رضویہ سوسائٹی کی عمارت گرنے پر بھی مقدمہ بلڈر کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ ایس بی سی اے صاف بچ نکلی۔ عدالت عظمیٰ اگر کراچی کی مخدوش عمارتوں کا سروے کرانے کا حکم دے تو حیرت انگیز طور پر 1990ء کے بعد بننے والی عمارتیں 1970ء اور 1980ء کے درمیان یا اس سے قبل بننے والی عمارتوں کے مقابلے میں زیادہ مخدوش ثابت ہوں گی۔ اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی کی تعمیرات میں خرابی کہاں سے شروع ہوئی۔ یہ واقعہ عین اس روز پیش آیا جب چیف جسٹس پاکستان کراچی میں موجود تھے۔ انہیں یقیناً اس کا سخت نوٹس لینا چاہیے۔ انسانی جانیں، سرکلر ریلوے اور گرین بیلٹ یا شہر کی خوبصورت سے زیادہ اہم ہیں جب تک چند ٹکوں کی خاطر انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی اور انہیں نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا ایسی عمارتیں بھی بنتی رہیں گی اور لوگ بھی مرتے رہیں گے۔ حکام اور عدلیہ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایک یونین کونسل سے اعلیٰ ادارے تک وصول کی جانے والی رشوت اعلیٰ حکام اور عدلیہ تک بھی پہنچتی ہے۔ یہ زنجیر توڑنی ہوگی۔