کے ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہے SESSI

342

شکیل احمد  شیخ
سماجی تحفظ فراہم کرنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یتیم بچوں اور بیوائوں کو یہ تحفظ فراہم کیا جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ضرورت سب کچھ کروالیتی ہے جس میں سماج دشمن عناصر کا آلہ کار بن جانا بھی شامل ہے۔ اکثر سرکاری ،نیم سرکاری اور خود مختار اداروں میں ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے علاج معالجہ کے لیے اسپتالوں کے پینل کا نظام موجود ہے۔ جس میں ملک کے تقریباً ہر بڑے شہر کے معروف اسپتال شامل ہیں جہاں پر ملازم اپنے کارڈ دکھا کر اپنے اور اپنے اہل خانہ کے مفت علاج کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں اور اکثر اداروں میں یہ سہولت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی برقرار رہتی ہے جبکہ یہ ادارے اس ضمن میں اپنے ملازمین سے کوئی چندہ وصولی یا رقم کی کٹوتی بھی نہیں کرتے۔پاکستا ن میں نجی اداروں کے ملازمین کے سماجی تحفظ کے لیے قانون ہے ان میں اکثر آمروں کے ادوار میں بنائے گئے ہیں جس میں مغربی پاکستان ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کا قیام جنرل ایوب خان کے دو ر میں عمل میں آیا جو ون یونٹ کے خاتمہ کے بعد صوبائی سطح پر تقسیم ہو گیا اور سندھ میں سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن ایکٹ کہلایا۔ ادارے قائم کرنے والوں کی نیت میں بہت اخلاص تھا کہ وہ آمر ہونے کے باوجود غریبوں کا درد رکھتے تھے لیکن جمہوریت میں عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کے لیے کہلاتی ہے اور ان جمہوری ادوار میں غریب عوام ہی ظلم کی چکی میں پس رہی ہے اگر وفاقی حکومت عوام کی سہولت کے لیے کوئی اقدام کرے تو صوبائی خودمختاری پر حملہ ہوتا اور 18ویں آئینی ترمیم خطرہ میں پڑھ جاتی ہے ۔ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن عملاًملازمین نہیں آجروں کو تحفظ فراہم کرنے والا ادارہ بن گیا ہے۔ چند ادارے ہی ہوں گی جن کے تمام ملازمین اس ادارے میں رجسٹرڈ ہیںاکثر نجی اداروں کے 5سے 10فیصد ملازم سندھ سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ ہیں اور سب سے زیادہ خراب صورتحال چوڑی سازی کی صنعت کے ملازمین کو پیش آ رہی ہے۔ جہاں کسی فیکٹری میں دو اور کہیں 5 ملازم رجسٹرڈ ہیں جبکہ کسی بھی کارخانے میں 200سے 250کے درمیان ملازم نہ ہو ں تو یہ کارخانہ نہیں چل سکتا کہ ہر کارخانے میں ایک چین سسٹم ہے جس کے تحت چین کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں اور ایک بھی کڑی کم ہو تو چین چل نہیں سکتی لیکن آجروں اور SESSIکے افسران کی ملی بھگت سے سب کچھ چل رہا ہے ۔یہ صورتحال تو تقریباً ہر ادارے میں حاضر ملازمین کے ساتھ موجود ہے لیکن سب سے اہم معاملہ جو ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی ملازم جو اس ادارے میں رجسٹرڈ ہو اس کے دوران ملازمت انتقال کے بعد اس کے اہل خانہ کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کے بیوہ معمولی نزلہ کھانسی کے علاج کی دوا کی حقدار بھی نہیں رہتی جب کہ مرحوم ملازم سے اس کے شوہر کی عرصہ ملازمت کے دوران بھاری چندہ وصول کیے گئے ہوتے ہیں جن سے یہ ادارہ اور اس ادارے کے افسران عیاشیاں کرتے ہیں۔ اگر اس چند میں کسی کا حق نہیں ہوتا تو وہ صرف بے سہارہ بیوہ،اور یتیم بچے ہوتے ہیں اگر اس ایکٹ میں کچھ معمولی ترمیم کرلی جائے کہ دوران ملازمت انتقال کر جانے والے ملازمین کی بیوہ کو تا حیات، دوسری شادی کرنے تک علاج معالجہ کی سہولت اور بچوں کو 18 سال کی عمر تک یہ سہولت فراہم کی جائے تو سیسی پر کوئی بہت زیادہ معمولی بوجھ نہیں پڑے گا لیکن ان غریبوں کی ایک ایسی مدد ہوگی جو فراہم کرنا اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہے ۔یورپ کے اکثر ممالک میں سوشل سیکورٹی کا ایک نظام موجود ہے جس کے تحت ہر ملازم ہی نہیں بے روزگار شخص کو بھی وظیفہ ملتا ہے اور بعض ممالک میں تو یہ وظیفہ جو بے روزگاری الائونس کہلاتا ہے چھوٹی موٹی ملازمتوں کی اجرت سے زیادہ ہوتا ہے اور بے روزگار چھوٹی ملازمت حاصل کرکے اس وظیفہ سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ فرانس میں سماجی تحفظ کا جو نظام موجود ہے وہ عمر ز لاء کہلاتا ہے جو خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق ؓ کے نافذ کردہ سماجی تحفظ کے قانون کا ہو بہو نقل ہے۔ اس نظام میں نا صرف شیر خوار بچوں کا وظیفہ مقرر ہوتا ہے بلکہ حاملہ خواتین اگر ملازمت میں ہوں تو ان کی تنخواہ کے ساتھ ایک وظیفہ دیا جاتا ہے۔ اگر خاتون بے روزگار ہو تو اس کے بے روزگاری الائونس میں مناسب اضافہ کردیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹی ٹیوشن EOBI کے تحت دوران ملازمت انتقال کرجانے والے اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن حاصل کرنے والے ملازمین کی بیوائوں کو تا حیات اور بچوں کو 18سال کی عمر تک پہنچنے تک پسماند گان پنشن کا حقدار قرار دیا جاتا ہے اور یہ پنشن ملازم کو ملنے والی پنشن کے مساوی ہوتی ہے اگر سوشل سیکور ٹی بھی بیوائوں اور یتیم بچوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرے تو نہ صرف یہ بے سہاروں کی مدد ہوگی بلکہ خلیفہ دوئم کے نافذ کردہ نظام پر عمل ہوگا جو دنیا اور آخرت میں اجر کا سبب بنے گا۔ صاحب اقتدار و اختیار اس جانب غور کریں کے جن ملازمین کے چندہ پر وہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں ان ملازمین کی بیوائوں اور یتیم بچوں کو بھی اس میں سے کچھ حصہ دے دیں تو ان کے گھر سے بھی کچھ نہ جائے گا لیکن غریبوں کی دعائیں ضرورحاصل ہوں گی۔