خطے میں بہتری کی اُمید بھارت کو لگام دینا ضروری ہے

552

سالار سلیمان
امریکی صدر کے حالیہ دورۂ بھارت کے دوران اور فوراً بعد خطے کی صورت حال عالمی سیاست کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری تقریر سننے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اُس نے بھارت کو صرف تھپکیاں دے کر بہلانے کی کوشش کی ہے۔ ڈیڑھ ارب آبادی کا حامل بھارت دراصل امریکا اور اس کی منڈیوں کی ضرورت ہے۔ چونکہ پاک چین دوستی بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، اس وجہ سے وہ اپنی حیثیت کے اعتبار سے ہرممکن حد تک چین کی مخالفت بھی کرتا ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات مثالی ہیں، لہٰذا بھارت کو منہ چھپانے کے لیے امریکا کی کٹھ پتلی بننا پڑتا ہے اور اسے ثابت کرنے کے لیے دونوں ممالک کے رہنما ایک دوسرے کے خوب کام آ رہے ہیں۔ امریکی صدر نے بھارت کوبہت سے دلاسے دے رکھے ہیں، اگر ذرا سا غور کیا جائے کہ تقریر کے جس حصے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی تعریف کی ہے ، اُس نے کشمیر پر اپنے لب مکمل خاموش رکھے ہیں، ساتھ ہی اُس نے بھارت میں انسانی حقوق پر بھی کوئی بات نہیں کی، حالاں کہ شہریت کے متنازع قانون کے بعد بھارت بھر میں مسلم کش فسادات جاری ہیں اور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ان فسادات کے پیچھے ہندو انتہا پسند اور ان کے پیچھے مودی سرکار موجود ہے۔
پاکستان کی تعریف کا تعلق بھارت سے نہیں، بلکہ افغانستان سے ہے، جہاں امریکا اپنی تاریخی اور طویل جنگ اتنی بری طرح ہار چکا ہے کہ دنیا نے اسے شکست تسلیم کرنے کے لیے ناک رگڑتے بھی دیکھ لیا ہے۔ طالبان نے وقت کی سپر پاور کو ہر محاذ پر بے بس کردیا ہے۔ 19 برس پر محیط اس جنگ کے دوران امریکا نے نہ صرف اپنے اتحادیوں بلکہ خود اپنے لیے ذلت اور عبرت سمیٹی ہے بلکہ وہ اپنے مفادات کے جو خواب دیکھ کر اس خطے میں داخل ہوا تھا، اسے وہ بھی حاصل نہیں ہو سکے، یہاں تک کہ اس نے اپنے اور اتحادیوں کے سیکڑوں فوجی موت کے گھاٹ اتروا دیے اور ان کے خاندانوں کو آہوں اور سسکیوں کے تحفے دیے۔ دوسری جانب طالبان انتہائی حد تک پُراعتماد ہیں کہ اگر امریکا خطے خصوصاً افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے تو افغان خود اپنے ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے نکلنے کا خواہش مند ہے اور تاریخی مذاکرات میں وہ طالبان کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ اس سے پہلے بھی امریکی سیاست دان یہ واضح کر چکے تھے کہ افغان جنگ کے باعث ان کی معیشت نہ صرف تباہ ہو چکی ہے بلکہ وہ اسے مزید طول دینے کے قابل بھی نہیں رہے اور اگر یہ جنگ دو برس مزید جاری رہتی تو نہ صرف امریکی اقتصادیات کا جنازہ نکلنے والا تھا۔ اس پورتی صورت حال کے باعث امریکی ریاستیں بھی علاحدگی کی تحریک پیش کرنے کی تیاریوں میں ہیں، جس کے نتیجے میں امریکا کی ٹوٹ پھوٹ کے قوی امکانات موجود ہیں۔ ٹرمپ حکومت فی الحال چاہتی ہے کہ کسی طرح چہرے پر لگی کلنک بھی عالمی سطح پر ظاہر نہ ہو اور اندرونی طور پر ممکنہ نقصانات سے بھی بچا جا سکے، جس کے لیے اسے پاکستان کی مدد کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے حالیہ دورۂ بھارت میں ٹرمپ نے پاکستان کی تعریف ان ہی معنوں میں کی ہے کہ پاکستان کو افغان امن معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان نے قیام امن کے لیے ہمیشہ امریکا کا ساتھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوحہ میں ہونے والے طالبان امریکا مذاکرات ممکن ہو سکے ہیں، جس کے اثرات اب آنا شروع ہوں گے۔
اُدھر تنازع کشمیر پر ثالثی کی امریکی خواہش کو بھارت نے روز اول ہی سے مسترد کررکھا ہے۔ بھارت نے عالمی تنقید، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور انسانی حقوق کے قوانین کی دھجیاں بکھیرتے اور اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھتے ہوئے نہ صرف کسی تیسرے فریق کی ثالثی کو مسترد کیا ہے بلکہ مقبوضہ وادی میں مہینوں سے کرفیو لگا کر اپنے انسان دشمن اور غیر جمہوری ہونے پر مہر ثبت کردی ہے۔ اس حوالے سے پریس بریفنگ میں بھی کسی نے اس موضوع پر سوال کی جرأت نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں صحافیوں کی صورت میں مودی سرکار نے ڈمیاں بٹھا رکھی تھیں، تاہم بند دروازوں کے پیچھے ٹرمپ اور مودی کے درمیان ضرور اس حوالے سے بات ہوئی ہوگی اور توقع ہے کہ امریکی صدر نے مودی سے بات چیت کی صورت میں حکم دیا ہوگا کہ فی الحال کسی قسم کی گڑ بڑ سے گریز کرے۔ چوں کہ خطے میں کوئی بھی دوسرا تنازع امریکا کی افغانستان سے جلد از جلد چھٹکارا پانے کی خواہش میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے اور ایسے میں اسے پاکستان کی اشد ضرورت ہے جبکہ ممکنہ طور پر بھارت کی جانب سے کسی بھی قسم کی اوٹ پٹانگ حرکت کے جواب میں اِس جانب پاکستانی افواج بھرپور انداز میں کسی بھی جارحیت کا منہ توڑنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔
بھارت میں جاری فسادات سے متعلق ٹرمپ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ مودی سے اس موضوع پر بات چیت ہوئی ہے اورانہوں نے مجھے بہت ’’پاور فل‘‘ جواب دیا ہے۔ ٹرمپ نے شہریت سے متعلق مسلم دشمن متنازع قانون کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا، تاہم ’پاور فل‘ جواب سے متعلق نہ ٹرمپ نے کوئی مزید تفصیل بتائی اور نہ ہی وہاں موجود کسی ’ڈمی‘ نے کوئی سوال کرنے کی ضرورت محسوس کی۔
بھارت کی جانب دیکھیں تو عین اس وقت جب امریکی صدر ٹرمپ نئی دہلی میں موجود تھے تو وہاں پُرتشدد مظاہرے جاری تھے، جن میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چک ہیں اور سیکڑوں مظاہرین زخمی اور معذوری کی حالت میں اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ بھارتی حکمراں جماعت اور سیاستدانوں نے ٹرمپ کی موجودگی میں ان مظاہروں پر پیڑول چھڑک کر اسے مزید بھڑکایا اور کسی میں ہمت نہیں تھی کہ بارے میں کوئی بات کر سکے۔ بھارت نے کھلے الفاظ میں نہیں تاہم سفارتی الفاظ میں امریکا کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ خطے میں امریکی مفادات کا کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ تحفظ بھی کر سکتا ہے۔ بھارتی حکومتوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسے خطے کا تھانے دار بنا دیا جائے، جس کے لیے وہ کسی بھی حد تک گرنے کو ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ چین اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کی کھلی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سی پیک کو نشانہ بنایا جائے، جس پر وہ کئی بار صاف الفاظ میں تنقید بھی کر چکا ہے۔ بھارتی خواہش کے برعکس خطے میں سیاست کی شطرنج پر امریکا بہت محتاط انداز میں چال چل رہا ہے۔ یہی وجہ

ہے کہ اندازوں کے برعکس امریکا اور بھارت میں حالیہ دورے کے دوران کوئی بڑا تجارتی معاہدہ بھی نہیں ہوا ہے اور آمد سے قبل امریکی صدر یہ بات واضح بھی کر چکے تھے۔
خطے کی تازہ صورت حال پر کوئی تبصرہ فی الحال قبل از وقت ہو سکتا ہے۔ اگر امریکا طالبان مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں، جس کے قوی امکانات بھی ہیں کیوں کہ اس جنگ سے جان چھڑانا خود امریکا کی خواہش ہے، تو خطے میں بہتری کی امید ہے، تاہم بھارت کو لگام ڈال کر رکھنا بہر حال ضروری ہے۔