گواہی

228

عالیہ زاہد بھٹی

جذبات جب دل کے اندر ہوں تو جو تلاطم بپا کرتے ہیں اس سے تو دل اور دل والا ہی واقف ہوتا ہے۔
مگر جب ان جذبات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرنا ہو تو وہ تلاطم موج در موج،ورق در ورق منتقل ہو کر لکھنا مشکل کردیتا ہے ۔
ہر تحریر باآسانی لکھ لینے والے بھی جب زندگی کی موت کے کنارے گواہی لکھنے بیٹھتے ہیں تو قلم ہار جاتا ہے سوچیں تھک جاتی ہیں مگر گواہی کا سلسلہ طویل تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔
اور یہ گواہی بھی اس شخص کے بارے میں ہو کہ جس نے رب کی محبت کا سودا چکانے کا معاہدہ رب کے گھر میں جاکر کیا ہو۔۔۔۔۔۔
والللہ ایسے مردِ مومن کی گواہی پر کوئی کیسے ،کتنا اور کہاں تک لکھ سکتا ہے؟
وہ رب کہ جس کی مدح میں ساری روئے زمین سمندر میں بدل جانے کے بعد اس کی سیاہی کو استعمال کیا جائے تو مدحت نہ لکھی جاسکے اس رب کا وہ ادنٰی سا بندہ،اس رب کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا ادنیٰ سا غلام جب
“اطیعوالللہ واطیعوالرسول”
کا عملی پیکر بن کر مثل باز اس رب کے حکم کو بجالانے کو پابجولاں سفر کرتا ہے ،اور پیرانہ سالی تک کرتا ہی چلا جاتا ہے تو ایسے عاشقِ رسول،ایسے مردِ مومن کے لئے تو اللہ پاک نے فرشتوں کو بھی حکم دے دیا ہوگا کہ
“جاؤ میرا بندہ تھک کر آیا ہے جنت اس کے نزدیک کردو”
یہ کیسی تھکن تھی کہ اس مردِ مومن کو پاسِ عہد نے ایک دن بھی عہد کو باندھنے کے بعد چین سے بیٹھنے نہ دیا
اللہ کے دین کی ہر پکار پر لبیک کہا
کراچی کی گلیاں ، سڑکیں،میدان ،تفریح گاہیں،پل،اسپتال،گزر گاہیں،بس اسٹاپ کے سائبان اقامت دین کی جدوجہد میں سرگرداں ادارے،لائبریریاں اور پتہ نہیں کیا کیا اس راہ وفا کے مسافرکی گواہی میں رطب السان ہیں
آج جب یہ خبر سنی کہ راہ وفا کا یہ مسافر اپنی منزل کو پہنچ گیا
بہت سارے سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ اس نام کی گونج اس طرح سنی کہ
،،،،،،، جناب نعمت اللہ خان صاحب،،،،،،،،،،،کا انتقال ہو گیا ہے،
تو دل جیسے اک عجیب سی کیفیت کا شکار ہو گیا،کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس مردِ مومن کی راست گواہیوں پر رشک کروں ؟؟؟؟؟
یا کراچی بلکہ امت مسلمہ،رب کے بہترین ماننے والے،رب کا حکم بجا لانے والے اک شاہباز وشاہین سے محروم رہ گئی ہے اس پر دکھ کا اظہار کروں؟؟؟؟
کراچی کے لئے ان کی خدمات کو سراہوں؟؟؟؟
یا کعبہ کےاحاطے میں کئے گئے عہد کی پاسداری کا پرچار کروں؟؟؟
اک خیال آرہا ہے کہ
ان سے اس سر زمین مقدسہ میں عہد لینے والے پروفیسر عبدالغفور بھی آج ان کے استقبال کو موجود ہوں گے
ان سے پوچھا ہوگا
“کہیں جناب میرا کراچی کیسا ہے ؟ کیا اب بھی اس کی گلیاں اس کی سڑکیں ہمیں یاد کرتی ہیں؟؟
کیا میری ارضِ پاکستان،نفاذ ایمان کی جدوجہد کی گواہی دیتی ہے ؟؟
کیا کراچی کے لوگوں نے آپ کی محبت اور اخلاص سے بھری خدمات کے صلے میں آپ کو دوبارہ بھی موقع دیا تھا؟؟؟؟؟
ساکنان جنت کی آگے پہنچ جانے والے ساتھیوں نے بڑھ کر شرف ملاقات حاصل کیا ہوگا اور
میرے رب نے عہد الست کو نبھانے کے انعام میں اپنی نعمتوں بھری جنت میں داخل کرلیا ہوگا اور آج تو آپ کو بھی اپنے نام کا مفہوم عملی طور پر سمجھ آ گیا ہوگا ،،،،،،،
جناب نعمت اللہ خان صاحب!!!!!!!!!!