سفر حج سے پہلے

263

ضمیر الحسن خان

حج دین اسلام کا آخری اور پانچواں رکن ہے، جو ہر اس شخص پر فرض ہے جو مکہ تک جانے آنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’حج کی جزا جنت ہے‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’حج سے انسان گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے گویا وہ آج ہی پیدا ہوا ہے‘‘۔ اگر یہ حقیقت نگاہوں کے سامنے ہو تو کون ہے جو اس فریضے کی ادائگی میں کوتاہی اور غفلت کی جرأت کرسکے۔
سفر حج کی تیاری میں امت افراط و تفریط کا شکار نظرآتی ہے۔ عام طور سے وہ کام کیے جاتے ہیں، جن کا روح حج سے کوئی تعلق نہیں، دعوتیں ہوتی ہیں، جشن منائے جاتے ہیں، سماج میں چرچا ہوتا ہے اور نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے، ان تمام چیزوں سے بچتے ہوئے جو کام کرنے کے ہیں ان کی طرف توجہ نہیں ہوتی یا بہت کم ہوتی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ آدمی سفر حج سے قبل توبہ کرے، اس بات کا پختہ عہدکرے کہ اب معصیت کا ارتکاب نہیں ہوگا، جو کچھ ہوا اس پر ندامت کے ساتھ استغفار ہو، اس عہد کے بعد ہی بندہ خدا کے گھر میں حاضر ہونے کے لائق اور اس کی بے کراں رحمت کا حق دار ہوسکتا ہے۔ ایک اور کام جو اس موقع پر یاد رکھنا چاہیے وہ اخلاص نیت ہے۔ اخلاص ہر کام کے لیے شرط ہے۔ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے یہ نیت بہت ضروری ہے کہ یہ سفر صرف اللہ کے لیے ہے۔ پھر وہ اِس بات کا پختہ ارادہ کرے کہ وہ ارضِ مقدس پرکسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرے گا، سنت رسول کی سچی توقیر کرے گا، اپنے آپ کو اطاعت و عبادت میں مشغول رکھے گا۔ کسی دنیوی کام میں وقت ضائع نہیں کرے گا اور لڑائی جھگڑے سے دور رہے گا، جب وہ شہر رسولؐ کی زیارت کو جائے تو دل میں صرف ایک شہر اور ایک مسجد کی زیارت کا شوق نہ ہو بلکہ نیت یہ ہو کہ رسولؐ سے ملنے جارہا ہے۔ اسی طرح مسجد نبوی اور روضہ اطہر کی زیارت صرف زیارت نہ ہو بلکہ درحقیقت آپؐ سے ملاقات کا شوق ہو۔ وہ شوق جو صحابہ کرامؐ کے اندر تھا۔ سیدنا بلالؓ کے بارے میں آتا ہے کہ حالت نزع میں جب ان کی شریک حیات کی زبان سے ہائے مصیبت نکلا تو فرمایا: یہ مت کہو! بلکہ خوش ہوجاؤ کہ میں اپنے حبیبؐ اور ان کے اصحاب سے ملنے جارہا ہوں۔ یہ شوق ہر بندۂ مومن کے دل میں ہونا چاہیے۔
ایک صحابی کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی ماں مدینے سے دور سخت بیمار تھیں، وہ ان کی عیادت کے لیے جانا چاہتے تھے۔ لیکن جب جب اس ارادے سے نکلتے، واپس آجاتے، کئی روز کے بعد بیوی نے پوچھا کہ کیا بات ہے، آپ جاتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں۔ فرمایا: مجھے اندیشہ ہے کہ میں مدینے سے نکلوں اور مدینے سے باہر چشم رسولؐ سے دور موت کا فرشتہ آجائے۔
ایک شخص مسجد نبوی کی زیارت کے شوق میں نکلتا ہے، عمدہ لباس پہنتا ہے، اسے خوش بو سے معطرکرتا ہے مگر جب درمسجد پر پہنچتا ہے تو دروازہ بند ہوچکا ہوتا ہے، کہنے والا کہتا ہے کہ جاؤ جاکر سوجاؤ یا کوئی اور کام کرلو۔ جب مسجد کھل جائے تو آنا۔ وہ بے چین ہوکر چیخ اٹھتا ہے کہ کیا میرے لیے یہ جائز ودرست ہوسکتا ہے کہ میں مدینہ آکر بھی اللہ کے رسولؐ سے پہلے کسی اور سے ملوں یا کوئی دوسرا کام کروں۔ چنانچہ وہیں بیٹھ جاتاہے، مسجد کے کھلنے کا انتظار کرتا ہے۔ اس کی آنکھ لگ جاتی ہے، کافی دیر کے جب اچانک آنکھ کھلتی ہے تو رونے لگتا ہے اور سوچتا ہے کہ رسول خدا کو اس تاخیر کا کیا جواب دوںگا؟ کیا یہ کہوں کہ نیند آگئی تھی۔ یہ جذبہ اور یہ تڑپ ہر زائر کے اندر ہونی چاہیے۔
روضہؐ مبارک پر پہنچ کر سچی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہاں کھڑے ہوکر عہد بندگی کی تجدید ہو، سنت رسولؐ کی اتباع کا سچا اور پکا عہد ہو، توبہ واستغفار ہو کہ یہ وہ مقام ہے جہاں ایمان کو تازگی ملتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ایمان، مدینے کی طرف ایسے ہی بھاگتا ہے جیسے سانپ اپنے بل (سوراخ) کی طرف۔ (بخاری ومسلم)
حج امت کی وحدت کا ضامن ہے کہ اس کا ہر رکن شہادت دیتا ہے کہ خدا ایک ہے۔ کعبہ ایک، رسول ایک، دین ایک اور لباس ایک ہے، اس کے ماننے والوں کو بھی ایک ہونا چاہیے۔ یہ اخلاقی و تربیتی کورس بھی ہے۔