پاکستان اور کورونا وائرس

1133

پاکستان میںسرکاری طور پر اعلان کردیا گیا ہے کہ دو شہری کورونا وائرس کا شکار پائے گئے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پورے ملک میں تھرتھری دوڑ گئی۔ سوشل میڈیا پر اس مرض سے بچاؤ کے لیے دعاؤں کے ساتھ ساتھ ٹوٹکے بھی وائرل ہوگئے۔ ساتھ میں مفت مشوروں کی بھرمار بھی کردی گئی کہ ہجوم میں نہ جائیں، باہر کا کھانا نہ کھائیں، لوگوں سے ہاتھ نہ ملائیں، ہر تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ دھوتے رہیں وغیرہ وغیرہ۔ فوری طور پر شہریوں نے ماسک خریدنے کے لیے میڈیکل اسٹوروں کا رخ کیا جہاں پر ماسک ختم ہوگئے، بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں 15 مارچ تک کی تعطیلات کا اعلان کردیا گیا جبکہ کراچی کے تعلیمی ادارے یکم مارچ تک بند رہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عر ب کا اعلان بھی سامنے آگیا ہے کہ فوری طور پر پاکستان سے آنے والے عمرہ زائرین پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس طرح کے اعلانات دیگر ممالک سے بھی آنے کے اندیشے ہیں۔
کورونا وائرس کے بارے میں 28 جنوری ہی کو دو قسطوں پر آرٹیکل سپرد قلم کیے تھے، اس بارے میں تفصیل سے جاننے کے لیے انہیں میری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ مختصر طور پر دوبارہ عرض ہے کہ کورونا وائرس انسان کے ہاتھوں لیبارٹری میں بنایا گیا جرثومہ ہے جسے خسرہ اور ممز کے دو جرثوموں سے ملا کر بنایا گیا ہے۔ اسے امریکا میں پیٹنٹ بھی کیا گیا تھا جس کا پیٹنٹ نمبر 10,130,701 ہے۔ اس وائرس کا تعلق سارس اور انفلوئنزا کے خاندان سے ہے اور اس کی علامات اور تکلیفات بھی سارس اور فلو جیسی ہی ہیں۔
گزشتہ آرٹیکل میں اس پر روشنی ڈالی تھی کہ کئی ایسی عام بیماریاں موجود ہیں جو کورونا وائرس کے مقابلے میں زیادہ جاں لیوا ہیں۔ فلو ہی کی مثال پیش کی تھی کہ امریکا کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق صرف امریکا میں فلو سے اب تک 14 ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ معالجے کے لیے ڈھائی لاکھ افراد کو اسپتالوں میں داخل کیا گیا۔ اصل میں اس سے متاثرہ افراد کی تعداد کئی گنا ہے۔ 2017 میں امریکا میں فلو سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 80 ہزار تھی۔ ایک اندازہ ہے کہ ہر برس صرف امریکا میں کئی کروڑ افراد فلو سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر برس دنیا بھر میں صرف ملیریا سے مرنے والے افراد کی تعداد کروڑ سے تجاوز کرجاتی ہے مگر ان امراض کے بارے میں نہ تو کبھی ایسا ماحول بنایا گیا اور نہ ہی ان سے بچاؤکے نام پر پورے پورے ممالک کا محاصرہ کرنے جیسی کیفیت سامنے آئی۔ اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں ہلاکت کی شرح دو تا تین فی صد ہے جو قابل تشویش نہیں ہے۔
گزشتہ آرٹیکل میں عرض کیا تھا کہ کورونا وائرس ہر لحاظ سے منفرد ہتھیار ہے۔ ایک تو یہ جراثیمی ہتھیار ہے جس کا ٹیسٹ کامیابی سے کیا گیا۔ اس کا دوسرا پہلو زیادہ خوفناک ہے اور وہ یہ ہے کہ بیماری اور اس سے بچاؤ کے نام پر پورے پورے ملک کا مقاطعہ۔ چین کے اندر پانچ کروڑ سے زاید افرادکو کورونا کے نام پر قید کردیا گیا۔ پوری د نیا میں چین کا مقاطعہ کردیا گیا۔ پوری دنیا میں چینی باشندوں کو کورونا وائرس کا نعم البدل سمجھ لیا گیا۔ امریکا اور یورپ میں مقیم چینی باشندوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات عام ہوگئے۔ حالانکہ یہ چینی باشندے کئی برسوں سے چین گئے بھی نہیں تھے۔ یوکرین میں وہاں کے باشندوں نے ایک ایسی بس پر پتھراؤ کردیا جس میں چین سے واپس آنے والے یوکرین کے باشندوں کو احتیاط کے طور پر قرنطینہ لے جایا جارہا تھا۔ کروز شپ پر موجود تین ہزار افراد کو کوئی ملک اپنی بندرگاہ کورونا وائرس کے خوف سے اترنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کروز شپ پر موجود ہر فرد کے اترتے کورونا تیزی سے پھیلے گا اور سارے مقامی باشندے اُس سے مرجائیں گے۔ کورونا وائرس کے نام پر عجیب وغریب تصاویر سامنے آتی ہیں۔ خصوصی سفید لباس پہنے کئی افراد پراسرار انداز میں کہیں مصروف ہیں۔ اس تصویر کے نیچے کیپشن لگا ہوتا ہے کہ کورونا کے خلاف حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے۔ کیا کورونا کوئی کتے بلی کی طرح کی مخلوق ہے جو یہ افراد اسے یوں ڈھونڈھ رہے ہوتے ہیں۔ کورونا کے نام کے ساتھ ہی ایک عجیب و غریب تصور یہ پھیلادیا گیا ہے کہ جیسے یہ ہر طرف فضا میں موجود ہے اور بس ہر شخص کے تعاقب میں ہے۔ اس تاثر کو پھیلانے میں شعبہ طب سے وابستہ افراد اور ان کی ایسوسی ایشنیں پیش پیش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی وائرس ہو وہ ہوا میں زندہ رہ ہی نہیں سکتا اور فوری طور پر مرجاتا ہے۔ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کے لیے جسمانی رابطہ ضروری ہے یا کم از کم کھانسی اور چھینکنے کے دوران رطوبت براہ راست دوسرے شخص کی سانس کے ذریعے اندر داخل ہو۔
ہر کچھ دن کے بعد کسی نہ کسی ملک میں کورونا دریافت کرلیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد یہی کھیل شروع۔ جنوبی کوریا اور اٹلی چونکہ طاقتور ہیں، اس لیے ان کا مقاطعہ نہیں کیا گیا مگر ایران کے ساتھ دوسری صورتحال ہے۔ اب یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہونے کے اندیشے ہیں۔ پاکستان میں کورونا وائرس کا مریض ڈیکلیئر کرنے میں عجیب و غریب صورتحال سامنے آئی۔ کراچی کا یحییٰ جعفری اپنے دو دوستوں کے ساتھ ایک گروپ میں بذریعہ ہوائی جہاز ایران کی زیارتوںکے لیے 6 فروری کو تہران پہنچا اور 20 فروری کو واپس کراچی پہنچ گیا۔ 25 فروری کو اسے نزلہ، زکام اور بلغم والی کھانسی کی شکایات ہوئیں۔ یہ 26 فروری کو آغا خان اسپتال میں داخل ہوگیا۔ 27 فروری کی شام کو ڈائریکٹریٹ جنرل ہیلتھ سروسز حکومت سندھ نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ یحییٰ جعفری میں کورونا وائرس تشخیص ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈائریکٹریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کی جاری کردہ رپورٹ میں لیبارٹری رپورٹ کے سامنے لکھا ہوا ہے کہ رپورٹ کا انتظار ہے۔ اسلام آباد میں دوسرے مریض کا انکشاف ہوا مگر اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
بین الاقوامی معیار کے مطابق مشتبہ مریض کے کم ازکم دو نمونے تشخیص کے لیے لیے جانے چاہییں۔ یہ نمونے تنفس کی نالی کے بالائی اور زیریں حصے کی رطوبت کے اور بلغم کے ہونے چاہییں۔ مگر آغا خان اسپتال کراچی میں داخل مریض کا تنفس کی نالی کے بالائی حصے کی رطوبت کا صرف ایک نمونہ ہی لیبارٹری کو بھجوایا گیا جس کی رپورٹ بھی نہیں آئی تھی کہ مریض کا اعلان کردیا گیا۔ اسی طرح بین الاقوامی معیار کے مطابق اگر پہلا ٹیسٹ مثبت آئے تو ملتے جلتے گیارہ وائرسوں کی تشخیص کے لیے مزید ٹیسٹ کرنے چاہییں۔ کیوں کہ فلو، HN1 اور دیگر بیماریوں کی علامات اور ٹیسٹ کی رپورٹ بھی ملتی جلتی ہوتی ہیں، اس لیے اعلان کرنے سے قبل توقف کرنا چاہیے مگر کراچی کے کیس میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔
پاکستان میں ایک مافیا ہے جو ہر طریقے سے اور ہر قیمت پر مال بنانے پر یقین رکھتی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے نام پر تواربوں روپے ادھر سے ادھر ہوسکتے ہیں۔ ماسک، قرنطینہ، سرکاری اداروں میں ٹیسٹ وغیرہ تو اس مافیا کے لیے سونے کی کان ثابت ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کورونا کا مریض ڈیکلیئر کرنے میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس میں بیرونی ہاتھ بھی ہوسکتا ہے جو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت سے ہر برس پاکستان سے زیادہ زائرین ایران جاتے ہیں مگر وہاں پر ایسی کوئی ہڑبونگ ہے اور نہ ہی وہاں پر عمرہ زائرین پر پابندیاں لگنی شروع ہوئی ہیں۔ اس پر بحیثیت قوم ہمیں ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس دنیاپر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔