مغرب اور اس کی جمہوریت پسندی

894

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اونتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صرف پانچ ملکوں کے پاس ویٹو پاور کی موجودگی ’’عدم مساوات‘‘ ہے۔ روزنامہ ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مزید آگے گئے۔ انہوں نے کہا کہ صرف پانچ ملکوں کے پاس ویٹو پاور کے ہونے سے اقوام متحدہ وہ مقصد حاصل نہیں کر پارہی جس کے لیے وہ قائم ہوئی تھی۔ یعنی تنازعات کا حل۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو ’’زیادہ جمہوری‘‘، ’’زیادہ کھلا‘‘، زیادہ ’’نمائندہ‘‘ اور ’’زیادہ موثر‘‘ بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرد جنگ کے دور میں دنیا ’’دو مرکزی‘‘ یعنی Bipolar تھی۔ اس وقت کھیل کے اصول بڑی حد تک واضح تھے۔ مگر اب دنیا ’’دومرکزی‘‘ ہے نہ ابھی تک کثیر مرکزی (Multipolar‘‘ بنی ہے۔ چناں چہ دنیا میں طاقت مرکز تعلقات یا Power relation عیاں نہیں اور دنیا میں انتشار برپا ہے۔ (ڈان کراچی۔ 19فروری 2020ء)
جمہوریت ’’مغرب کی ایجاد‘‘ ہے مگر مغرب نے خود اپنی ایجاد کی جس طرح مٹی پلید کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ عالمی سطح پر مغرب کی اس ’’جمہوریت پسندی‘‘ نے ’’Internalional order‘‘ کو ’’International disorder‘‘ بنادیا ہے۔ اقوام متحدہ مغربی طاقتوں نے عالمی نظام چلانے کے لیے بنائی تھی مگر ’’جمہوری مغرب‘‘ نے اقوام متحدہ کو تشکیل دیتے ہوئے جمہوریت کو Rape کر ڈالا۔ اس نے اقوام متحدہ کو دو بڑے اداروں میں تقسیم کیا۔ ایک ادارے کو اس نے ’’جنرل اسمبلی‘‘ کا نام دیا۔ جنرل اسمبلی ’’تقریری جمہوریت‘‘ کی عمدہ مثال ہے۔ کسی بھی ملک کا سربراہ یا نمائندہ جنرل اسمبلی میں کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ مغرب نے اقوام متحدہ کا دوسرے بڑے ادارے کو ’’سلامتی کونسل‘‘ کا نام دیا۔ یہ اقوام متحدہ کا اصل ادارہ ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی تقدیر سے متعلق سارے فیصلے سلامتی کونسل میں ہوتے ہیں۔ مگر سلامتی کونسل سر تا پا ایک ’’غیر جمہوری ادارہ‘‘ ہے۔ سلامتی کونسل کے کل اراکین کی تعداد 15 ہے۔ ان میں سے دس اراکین غیر مستقل اور تقریباً غیر موثر ہیں۔ البتہ سلامتی کونسل کے پانچ اراکین کے پاس ویٹو پاور ہے جس کے ذریعے وہ سلامتی کونسل کی کسی بھی قرار داد کو ویٹو کرسکتے ہیں۔ پانچ ویٹو پاورز دراصل پانچ بین الاقوامی غنڈے ہیں۔ ان غنڈوں اور گلی کے غنڈوں میں فرق صرف ’’سطح‘‘ کا ہے۔ ’’نوعیت‘‘ کا نہیں۔ گلی کے غنڈے ’’مقامی غنڈے‘‘ ہیں اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین بین الاقوامی غنڈے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب ’’جمہوری مغرب‘‘ سلامتی کونسل کو پانچ بین الاقوامی غنڈوں کے حوالے کررہا تھا تو مغرب کے کسی دانش ور اور مدبر نے ’’جمہوریت ماتا‘‘ کے Rape ہونے پر احتجاج نہ کیا۔ کسی نے نہ کہا کہ سلامتی کونسل ایک ’’غیر جمہوری ادارہ‘‘ ہے۔ اس ادارے سے تنازعات حل نہیں ہوں گے بلکہ تنازعات مستقل موجود رہیں گے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ 75 سال میں مغرب دنیا کے کسی ملک، مغربی دنیا کے کسی رہنما یا مغربی دنیا کے کسی دانش ور نے یہ نہ کہا کہ سلامتی کونسل بڑے بین الاقوامی تنازعات کے حل میں ناکام ہوگئی ہے اس لیے اس ادارے کو ختم کردینا چاہیے اور اقوام متحدہ کے سارے فیصلے اب جنرل اسمبلی میں اکثریت کے جمہوری اصول کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔
گزشتہ پندرہ بیس سال سے بات ہو بھی رہی ہے تو یہ کہ سلامتی کونسل کے مستقبل اراکین کی تعداد بڑھا دی جائے۔ یعنی اس وقت عالمی غنڈوں کی تعداد پانچ ہے تو بڑھا کر سات یا آٹھ کردیا جائے۔ لیکن کیا غنڈوں کی تعداد بڑھانے سے سلامتی کونسل کی ’’جمہوری عصمت‘‘ بحال ہوجائے گی؟ اقوام متحدہ کے اراکین کی تعداد 200 سے زیادہ ہے۔ چناں چہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد پانچ سے آٹھ کرکے کیا دو سو اقوام کے ’’جمہوری حق‘‘ کا تحفظ ہوجائے گا۔ کہا جارہا ہے کہ جرمنی، جاپان اور ہندوستان کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ جاپان امریکا کی مرضی کے بغیر ’’سیاسی سانس‘‘ بھی نہیں لیتا۔ جرمنی امریکا کا ’’پرانا اتحادی‘‘ ہے۔ رہا بھارت تو وہ امریکا کا ’’نیا اتحادی‘‘ ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر جرمنی، جاپان اور ہندوستان کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنالیا گیا تو امریکا کی عالمی غنڈہ گردی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ بعض مسلمان کہتے ہیں کہ مسلم ملکوں میں سے بھی کسی ملک کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنایا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ دنیا میں 57 مسلم ریاستیں موجود ہیں۔ یعنی یہ مطالبہ کرنے والے مسلمان چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے بھی کوئی بین الاقوامی غنڈہ بن کر اُبھرے۔ آخر وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ سلامتی کونسل کو ختم کرو اور سارے فیصلے جنرل اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر کرو۔ انتونیو گوتریس نے سلامتی کونسل کی ویٹو پاورز سے پیدا ہونے والی ’’عدم مساوات‘‘ کے خلاف آواز اُٹھائی ہے مگر انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو زیادہ جمہوری، زیادہ نمائندہ اور زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ آخر وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اقوام متحدہ کو ’’مکمل جمہوری‘‘ ’’مکمل نمائندہ‘‘ اور ’’مکمل مؤثر‘‘ بنانے کی ضرورت ہے۔ انصاف پورا انصاف ہوتا ہے۔ آدھا، پونا یا ایک تہائی انصاف نہیں ہوتا۔ چناں چہ جمہوریت بھی ’’پوری جمہوریت‘‘ ہونی چاہیے۔ آدھی پونی جمہوریت تو جمہوریت کے منہ پر تھوکنے کے مترادف ہے۔
مغرب ’’جمہوریت دشمنوں‘‘ کے سخت خلاف ہے مگر سلامتی کونسل میں پانچ ویٹو پاورز کی موجودگی خود بہت ہی بڑی جمہوریت دشمنی ہے۔ چلیے مغرب کے سیاست دان تو ’’شیطان کے چیلے‘‘ ہیں مگر مغرب کے ذرائع ابلاغ اور مغرب کے دانش وروں اور صحافیوں کو بھی سلامتی کونسل کا جمہوریت دشمن ہونا نظر نہیں آتا۔ آتا تو مغرب کے ذرائع ابلاغ میں اس بات پر کبھی نہ کبھی ’’مباحثہ‘‘ ضرور ہوتا کہ سلامتی کونسل اتنی غیر جمہوری بلکہ جمہوریت دشمن کیوں ہے۔ مغرب کے ذرائع ابلاغ اور دانش وروں کی سلامتی کونسل کی جمہوریت دشمنی کے سلسلے میں ’’خاموشی‘‘ ان کے ’’خبثِ باطن‘‘ کا اظہار ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ مغرب کا مفاد اس میں ہے کہ سلامتی کونسل ’’جمہوریت دشمنی‘‘ ہو۔ سلامتی کونسل ختم ہوگئی یا اقوام متحدہ مکمل طور پر ’’جمہوری‘‘ ہوگئی تو مغرب کے بہت سے مفادات کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ پاکستان میں بہت سے لکھاری مغرب کی ’’ایمانداری‘‘ اور ’’انسانیت‘‘ کا ڈھونڈورا پیٹتے رہتے ہیں مگر مغرب کی پوری تاریخ ’’ناانصافی‘‘ اور ’’انسانیت دشمنی‘‘ سے بھری ہوئی ہے۔ اس کی جمہوریت سے متعلق تاریخ بھی۔
مسلمان سمجھتے ہیں کہ ’’حلال‘‘ اور ’’حرام‘‘ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہیں۔ لیکن مغرب کے اپنے حلال و حرام ہیں، یہاں تک کہ جمہوریت کے سلسلے میں بھی مغرب کا حلال اور مغرب کا حرام پوری طرح موثر ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم دنیا میں جہاں کوئی اسلامی جماعت انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہے جمہوریت اچانک ’’حرام‘‘ ہوجاتی ہے۔ البتہ اگر مسلم ملک میں کوئی سیکولر، لبرل یا مغرب کی آلہ کار سیاسی جماعت انتخابات میں کامیاب ہوجاتی ہے تو جمہوریت ’’حلال‘‘ ہوجاتی ہے۔ مغرب نے الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی دو تہائی اکثریت سے کامیابی کو قبول نہ کیا۔ مغرب نے ترکی میں نجم الدین اربکان کی حکومت کو گروایا۔ مغرب نے حماس کی ’’جمہوریت کامیابی‘‘ کو ’’مسترد‘‘ کردیا۔ مغرب نے مصر میں صدر مرسی کے خلاف جنرل کی بغاوت کی پشت پناہی کی۔ مغرب نے طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت کی حوصلہ افزائی کی۔ البتہ بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کا دشمن مودی اقتدار میں آجائے تو جمہوریت ’’زندہ باد‘‘ ہوجاتی ہے۔ ہر امریکا ہی تھا جس نے گجرات کے مسلم کش فسادات میں مودی کے گھنائونے کردار کی وجہ سے مودی کو امریکا کا ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا مگر جیسے ہی مودی وزیراعظم بنا امریکا نے جمہوریت زندہ باد کا نعرہ فضا میں اُچھال کر مودی کے گرد طواف کرنا شروع کردیا۔ یہ اصول ’’مطلق‘‘ ہوتا ہے اور جو اصول مطلق نہ ہو اسے ’’اصول‘‘ نہیں کہتے۔
جمہوریت کو ’’عوام مرکز‘‘ اور ’’عوام دوست‘‘ نظام کہا جاتا ہے مگر مغرب کی جمہوریت نے ’’عوام مرکز‘‘ اور ’’عوام دوست‘‘ ہونے کی جو مثالیں قائم کی ہیں انہیں دنیا کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ یہ مغرب کی جمہوریت تھی جس نے ہٹلر کو جنم دیا۔ یہ جمہوریت کا علمبردار امریکا تھا جس نے جاپان کے ’’عوام‘‘ پر ایک نہیں دو ایٹم بم گرائے۔ یہ مغرب کے جمہوری رہنما تھے جنہوں نے کوریا میں 20 لاکھ اور ویت نام میں 10لاکھ عام لوگوں کو مار ڈالا۔ یہ مغرب کے جمہوری رہنما تھے جنہوں نے عراق پر اقتصادی پابندیاں لگا کر 5 لاکھ بچوں سمیت 10 لاکھ عراقیوں کو غذا اور دوائوں کی قلت کا شکار کرکے مار ڈالا۔ جب اس قتل عام پر ایک مغربی صحافی نے امریکا کے جمہوری رہنما اور امریکا کی وزیر خارجہ میڈلین البرائیٹ سے پوچھا کہ آپ 10 لاکھ عراقیوں کی موت پر کیا کہتی ہیں تو انہوں نے فرمایا:
’’It is acceptabe and worth it‘‘
سوال یہ ہے کہ جس ذہن کے لیے 10 لاکھ معصوم انسانوں کی ہلاکت ’’قابل قبول‘‘ ہوسکتی ہے کیا وہ ذہن ’’انسانی ذہن‘‘ کہلا سکتا ہے؟ لیکن یہاں ہمیں ایک بار پھر مغرب اور اس کی جمہوریت کو زندہ باد کہہ دینا چاہیے۔ مغرب اس کی جمہوریت زندہ باد۔