بھارتی انتہا پسندی کو کون لگام دے گا؟

697

بھارت میں انتہا پسندی سر چڑھ کر بولتے بولتے اب انسانیت کو بُری طرح روند رہی ہے۔ منگل کو دہلی میں بابری مسجد کے سانحے کی یاد دہرا دی گئی۔ پاگل پن کے شکار جنونیوں نے 13 مسلمانوں کو شہید کردیا، بے دردی سے مار مار کر قتل کیا گیا، ڈیڑھ سو کے لگ بھگ مسلمانوں کو زخمی کردیا گیا، مساجد پر حملے کیے گئے، ایک تصویر ساری دنیا کے میڈیا نے شائع کی کہ انتہا پسند مسجد کے مینار پر چڑھ کر اس کو توڑ رہے اور ترنگا لہرا رہے ہیں۔ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں گلی کوچوں میں مسلمانوں پر تشدد کیا جارہا ہے۔ مساجد کے لائوڈ اسپیکر اکھاڑ دیے گئے، جلائو گھیرائو ہورہا ہے، دوسرے شہروں سے آنے والے مسلمان پھر نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ بعض علاقوں میں کرفیو لگایا گیا ہے لیکن کرفیو میں بلوائیوں کو نقل و حرکت کی مکمل آزادی ہے۔ بھارت میں اس انتہا پسندی پر دنیا کا نام نہاد ضمیر مر گیا ہے۔ سب چین کی نیند سو رہے ہیں، اس عالمی ضمیر کو پولیو پر مروڑ اٹھتا ہے، اسلامی ملک میں عورت کو ڈرائیونگ کی اجازت نہ ملنے پر تکلیف ہوتی ہے۔ پاکستان میں مندر کی بے حرمتی کے بھارت کے جھوٹے پروپیگنڈے پر عالمی برادری چیخ اٹھی، ہر طرف سے شور اٹھنے لگا۔ پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پختہ کردیا گیا کہ یہاں اقلیتوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں، اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ حالاں کہ ایک ایسی اقلیت اس ملک پر مسلط ہے جو نہ مذہبی ہے نہ سیاسی۔ بلکہ وہ صرف مفاد پرستوں کا ایک مختصر ٹولہ ہے۔ کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے دکھوں کا ملجا و ماوا پاکستان تھا جب تک پاکستان سے ان مظالم کے خلاف توانا آواز اٹھتی رہتی تھی بھارتی مسلمان خود کو طاقتور محسوس کرتے تھے اور انتہا پسند اپنے بلوں میں دبکے رہتے تھے لیکن اب پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی اور کم ہمتی کے نتیجے میں بھارت میں انتہا پسندی گلی کوچوں میں اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ کشمیر میں 5 اگست کے اقدام پر پاکستان میں خاموشی، ہمیں جنگ نہیں لڑنی۔ گلگت بلتستان پر اس کا دعویٰ… پاکستان کا جواب… ہمیں جنگ نہیں لڑنی۔ بابری مسجد کا فیصلہ… یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، اب مسجدوں میں گھس کر بے حرمتی کی گئی ہے اب بھی خاموشی۔ ہاں 27 فروری 2019ء کا جشن موسیقی ضرور ہوا ہے۔ اگر اس صورت حال پر پاکستان نے آواز نہیں اٹھائی اور سرکاری موقف پیش نہیں کیا تو کوئی ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے پھر پاکستانی حکمران اسے انتہا پسندی کہیں گے۔