افراد کا نہیں مسئلہ نظام کا ہے (پہلی قسط)

551

عمران خان کو پاکستان کے عوام کی امید قرار دیا جاتا تھا۔ عوام کو یقین دلایا گیا تھا کہ ان کی معاشی تکا لیف، مشکلات اور مہنگائی کی صرف ایک وجہ ہے سابقہ کرپٹ حکمران اور ان کی کرپشن۔ عوام کو تسلی دی گئی کہ جیسے ہی عمران خان کی حکومت ایک ایمان دار معاشی ٹیم کے ہمراہ بروئے کار آئے گی تو نہ صرف ملک معاشی مشکلات سے نکل آئے گا بلکہ عوام کو بھی معاشی آسودگی نصیب آئے گی۔ لیکن عملی طور پر ہوا اس کے برعکس۔ لوگوں کی مشکلات میں کمی آنا تو درکنار وہ اضافہ ہوا کہ پورے ملک میں ہاہا کار مچ گئی۔ پچھلے بارہ سال کی مہنگائی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ مہنگائی کی شرح کو قابو میں رکھنے میں حکومت کو زبردست ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دسمبر 2019 میں پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹک کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ مہنگائی کی شرح 12.6فی صد ہوگئی ہے جس سے پچھلے بارہ سال کی مہنگائی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ دو ماہ بعد فروری 2020 میں پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹک کی طرف سے قرار دیا گیا کہ جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں دو فی صد اضافے کے بعد یہ شرح 14.6فی صد ہوگئی ہے۔
ابتداً خان صاحب کی حکومت اپنی بد انتظامیوں اور ملک میں برپا مہنگائی کی قیامت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھی اور اسے میڈیا کا پروپیگنڈا قرار دیتی رہی لیکن جب کابینہ اور اسمبلی کے اراکین نے میٹنگوں میں عوام کے بڑھتے ہوئے غم وغصے اور طوفان کی تکرار کی اور خان صاحب کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے حلقوں میں عوام کو منہ دکھانے اور ان کے طیش اور نفرت کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہے تو حکومت کو کچھ کچھ صورت حال کا اندازہ ہوا۔ عوام کو ایک نئے سرے سے ٹریٹ کرنا شروع کردیا گیا۔ صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے 15فروری کو وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کیا کہ مہنگائی ہماری کوتاہی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اس سے پہلے 7فروری کو شیخ رشید نے اعتراف کیا کہ لوگ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے ناراض ہیں۔ حفیظ شیخ نے عوام کی ڈھارس بندھانے کے لیے کہا کہ ’’قوم جلد ہی قیمتیں گرنے کا مشاہدہ کرے گی‘‘۔
پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کی تمام مشکلات کی وجہ فوجی حکومت کو قراردیا جاتا تھا۔ زرداری اور نواز شریف کی سول حکومتیں آئیں اور مسائل پھر بھی حل نہیں ہوئے تو ان دو سربراہان حکومت کی بددیانتی اور کرپشن کو مورد الزام ٹھیرایا گیا۔ عمران خان کی حکومت آئی۔ ایک امین اور صادق اور کرپشن فری وزیراعظم آیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بجائے خود یا براہ راست بد عنوانی میں ملوث نہیں سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ کیوں ہوتا جارہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک بنیادی حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کے باہمی تصادم اور ٹکرائو میں ہم افراد کو پاکستان کی تباہ حالی اور پسماندگی کی وجہ قرار دیتے آئے ہیں لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ مہنگائی کی یہ وجہ نہیں ہے۔ مہنگائی کی وجہ فرد کی کرپشن سے زیادہ نظام کی کرپشن ہے۔
پاکستان میں فوجی حکومتیں رہیں یا سول۔ پرویز مشرف آئے یا ان سے پہلے ضیاء الحق، یحییٰ خان اور ایوب خان اسی طرح سول حکومتوں میں ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے یا نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم اور بعد میں ان کے شوہر آصف علی زرداری صدر یا پھر اب عمران خان کی صورت میں ایک نئی پارٹی اور ایک نئی شخصیت اقتدار میں آئی ہے۔ یہ صرف چہروں کی تبدیلی رہی ہے۔ فوجی حکومتیں ہوں یا سول، نظام ایک ہی رہا۔ سرمایہ دارانہ نظام۔ عمران خان تبدیلی اور ریاست مدینہ کے نعرے کے تحت اقتدار میں آئے۔ جب حکومتی نظام کو ریاست مدینہ کی مثل بنانے کی بات کی جاتی ہے یا ریاست مدینہ سے منسوب کیا جاتا ہے تو اس میں سرمایہ دارانہ نظام کی قطعاً گنجائش نہیں رہتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے کے باوجود عمران خان سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے سب سے زیادہ دلدادہ ہیں۔ انہوں نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے کسی بھی اقدام اور پالیسی سے سرمایہ دارانہ نظام سے ایک انچ گریز کا ارادہ ظاہر کیا اور نہ ہی کوئی ایسا عملی قدم اٹھایا جس سے ظاہر ہو کہ وہ نظام کی تبدیلی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے چوکیدار آئی ایم ایف کے بارے میں پاکستان کے عوام کو دھوکا دینے کے لیے یہ دعویٰ ضرور کیا تھا کہ خودکشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا۔ اس دھوکے کا بھرم رکھنے کے لیے کچھ عرصے وہ یہ ناٹک بھی کرتے رہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن ناٹک بازی کے اس عرصے میں بھی وہ پاکستان میں آئی ایم ایف کو لانے کی تیاری کرتے رہے اور آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر کام کرتے رہے۔ گزشتہ برس فروری 2019 میں نیوز لائن میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا تھا ’’یہ پہلا موقع ہے کہ ایک منتخب حکومت نے اپنے طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر رہتے ہوئے سخت اقدام لیے ہیں۔ صورتحال سخت اقدامات کا تقاضا کرتی تھی جس کے نتیجے میں لازمی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے‘‘۔ بالآخر مئی 2019 میں خان صاحب کی حکومت نے محض دو ارب سالانہ کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کی جھولی میں ڈال دیا۔ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے بعد ہی اس ادارے نے جولائی 2019 میں واضح کردیا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 13فی صد تک جائے گی۔
پاکستان میں پرویز مشرف کی فوجی حکومت ہو یا نواز شریف، زرداری، بے نظیر اور عمران خان کی سول حکومتیں سب نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چاہے پرویز مشرف کا دور تھا یا نواز شریف، بے نظیر، زرداری یا عمران خان کا، ہر دور میں عوام مہنگائی کے ہاتھوں پستے رہے، مہنگائی کا رونا رہتے رہے۔ اگر فوجی حکومتوں کی وجہ سے مہنگائی ہوتی تھی تو پرویز مشرف کے جانے کے بعد مہنگائی کا سلسلہ رک جانا چاہیے تھا۔ اگر زرداری اور نواز شریف کی کرپشن کی وجہ سے مہنگائی ہوتی تھی تو اب اس کا بھی جواز نہیں رہا کہ صادق اور امین عمران خان برسر اقتدار ہیں۔ اس پوری بحث سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ مسئلہ فرد کا نہیں ہے مسئلہ نظام کا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام بجائے خود کرپشن کو فروغ دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہی درحقیقت ایک کرپٹ نظام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں ایسا کیا ہے کہ مہنگائی میں لازمی اضافہ ہوتا ہے۔آئیے اس نظام کا جائزہ لیتے ہیں۔
صرف رفتار میں کمی بیشی ہوتی ہے ورنہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کی 6وجو ہات ہیں:
1۔ کرنسی کی بے حساب چھپائی
2۔ سود
3۔ ٹیکس لگانے کی آزادی: بجٹ 2019-20 کے مطابق رجعت پسندانہ (regressive) بالواسطہ ٹیکس تقریباً3500 ارب روپے ہیں جو تمام ٹیکسوں کا 62فی صد سے بھی زائد ہیں۔ آسان زبان میں یہ وہ ٹیکس ہیں جو ملک ریاض اور میاں منشا بھی اسی شرح سے ادا کرتے ہیں جو سڑک کنارے دھوپ میں بیٹھا ایک مزدور۔ یکساں شرح سے لاگو یہ وہ ٹیکس ہیں جو غریبوں کی آمدنی کا بڑا حصہ ہڑپ کرجاتے ہیں۔ وزارت خزانہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینے میں تیل اور گیس پر لگائے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں عوام کی جیبوں پر 44فی صد سے زیادہ کا ڈاکا ڈالا گیا حالانکہ اس عرصے میں تیل اور گیس کی درآمد میں 20فی صداور ملکی پیداوار میں 10فی صد کمی ہوئی ہے۔
(جاری ہے)