آئی جی سندھ اور پیپلز پارٹی کے درمیان محاز ۤرائی شدت اختیار کر گئی

359

راچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان پیپلز پارٹی اور آئی جی سندہ کے درمیاں ہونے والی محاذ آرائی شدت اختیار کرگئی، پیپلز پارٹی نے عمر کوٹ میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کارروائی کے لیے چیف الیکشن کمشنر سکندر راجا سلطان سے رجوع کرلیا۔اس سے قبل 19 فروری کو آئی جی سندھ نے چیف سیکریٹری عمر کوٹ کو ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کے تبادلے کے لیے خط لکھا تھا، دوسری طرف ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان احمد نے آئی جی سندھ کے نام اپنے ایک خط میں اپنی جان کو صوبائی وزراء امتیاز شیخ اور سعید غنی سےلاحق خطرات سے آگا ہ کیا ہے ، تفصیلات کے مطابق
پی پی پی کے مرکزی الیکشن سیل کے سربراہ اور سابق سینیٹر تاج حیدر نے سی ای سی کے نام ارسال کردہ ایک خط میں چیف الیکشن کمشنر سے درخواست کی کہ آئی جی سندھ کی مبینہ بے ضابطگی پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور انہیں جانبدار ہونے سے روکا جائے، پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ درخواست آئی جی سندھ کے اس خط کے جواب میں دی جو انہوںنے چیف سیکرٹری سندھ توسط س الیکشن کمیشن پاکستان کولکھ تھاجس میںعمر کوٹ کے ایس ایس اور ڈپٹی کمشنر کے تبادلوں کی استدعا کی تھی۔ اپنے خط میں تاج حیدر نے چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کیا کہ آئی جی سندھ نے الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 5(4) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک متنازع خط لکھا۔خیال رہے کہ پی ایس-52 عمر کوٹ کی نشست پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی سید مردان شاہ کی وفات کے باعث خالی ہوئی تھی جو وہاں سے 5 مرتبہ منتخب ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے مذکورہ صوبائی نشست پر 17 مارچ کو ضمنی انتخاب کروانے کا اعلان کیا تھا۔میڈیا کو جاری کردہ خط کی نقل کے مطابق تاج حیدر نے کہا کہ سرکاری حکام کو قانونی شرائط کی معلومات ہوتی ہیں، بدقسمتی سے آئی جی سندھ نے مذکورہ بالا ضلعی افسران کی غیر جانبداری پر شک و شبے کا اظہار کر کے اپنی جانبداری عیاں کردی ہے جو ان کے لیے مناسب نہیں،تاج حیدر نے چیف الیکشن کمشنر سے درخواست کی کہ ’بے ضابطگی کے مرتکب آئی جی سندھ کے خلاف کارروائی کی جائے اور انہیں ہدایات دی جائے کہ وہ غیرجانبدار کردار ادا کر کے اپنے عہدے کا وقار ملحوظ رکھیں،خیال رہے کہ 19 فروری کو الیکشن کمیشن نے سندھ کے چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ کو عمر کوٹ کے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کو عہدے سے ہٹانے/تبادلے کے لیے خط لکھا تھا،جس کے جواب میں 20 فروری کو آئی جی سندھ نے کہا تھا کہ وہ پہلے ہی موجودہ ایس ایس پی کی بے ضابطگی کی رپورٹ حکومت سندھ کو بھجواچکے ہیں،اور پر غلفت، غیر پیشہ ورانہ رویے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کے ساتھ ساتھ متعصب اور جانبدارانہ اقدامات کے بھی شواہد ملے ہیں، دوسری طرف ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان احمد نے اپنے ایک خط میںآئی جی سندھ کومطلع کیا ہے کہ انہیں اور دیگر پولیس افسران کو صوبائی وزراء امتیاز شیخ اور سعید غنی سے خطرات لاحق ہیں۔ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد نے خط میں کہا ہے کہ صوبائی وزراء امتیاز شیخ اور سعید غنی کے دھمکی آمیز بیانات کی روشنی میں خود اور پولیس افسران کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔خط کے متن کے مطابق صوبائی وزراء نے پولیس افسران سے متعلق کہا ہے کہ وہ انہیں دیکھ لیں گے، خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ سیاستدانوں کے ان بیانات کے بعد کچے میں موجود ڈاکو پولیس افسران کو حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ڈاکٹر رضوان کا خط میں کہنا تھا کہ کچے میں موجود ڈاکووںکو سیاستدانوں کی حمایت حاصل ہے۔،خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے آئی جی سندھ سید کلیم امام کےساتھ اختلافات کھل کر گزشتہ ماہ سامنے آئے تھے اور اس تناظر میں 15 جنوری کو سندھ کابینہ نے آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کو عہدے سے ہٹانے اور ان کی خدمات وفاق کو واپس دینے کی منظوری دی تھی، اس سے قبل آئی جی سندھ کلیم امام کو گزشتہ ہفتے اس وقت پی پی پی کی جانب سے برہمی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے صوبائی وزیر تیمور تالپور کے ساتھ کھلی کچہری میں سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد کی موجودگی کا نوٹس لیا تھا۔رپورٹس کے مطابق آئی جی سندھ نے کراچی پولیس چیف سے اس واقعے کی تحقیقات کرنے اور اس کی روشنی میں قانونی کارروائی کرنے کے ساتھ تفصیلی رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔