حافظ محمد سعید کا قصور؟

556

لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے حافظ محمد سعید کو غیر قانونی فنڈنگ اور کالعدم تنظیم کا رکن ہونے کے مقدمات میں 11 سال قید اور 30 ہزارا روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ یہ سزا اس وقت سنائی گئی ہے جب چند روز بعد پیرس میں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہونے والا تھا۔ یہ اجلاس پاکستان کے لیے اس اعتبار سے اہم تھا کہ اس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالنے یا نہ ڈالنے کا فیصلہ متوقع تھا۔ پاکستان نے حافظ سعید کو قید و جرمانے کی سزا دے کر ایف اے ٹی ایف کی فیصلہ ساز اتھارٹی کو باور کرایا کہ وہ اس کے طے کردہ اہداف کو پورا کرنے میں مخلص ہے اور اس سلسلے میں تمام انتظامی و قانونی اقدامات کررہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عدالتی کارروائی کا پیرس اجلاس پر نہایت مثبت اثر پڑا اور چین و ترکی سمیت دوست ممالک نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دیا اور پاکستان بلیک لسٹ میں ڈالے جانے سے بچ گیا۔ تاہم وہ گرے لسٹ میں موجود رہے گا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کے لیے جو اہداف مقرر کیے ہیں ان پر پیش رفت کی نگرانی جاری رہے گی اور آئندہ اجلاس میں پاکستان کو اپنی کارکردگی رپورٹ میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے وہ تمام اہداف کامیابی سے مکمل کرلیے ہیں جو اسے دیے گئے تھے۔ اجلاس کے شرکا پاکستان کی کارکردگی رپورٹ سے مطمئن ہوئے اور پاکستان کے حامی ممالک کی آواز زیادہ طاقتور ثابت ہوئی تو اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے بھی نکال دیا جائے اور پاکستان پر پابندیوں کی جو تلوار لٹک رہی ہے وہ باقی نہ رہے لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایف اے ٹی ایف میں بھارت کی لابی بھی بہت مضبوط ہے اور اس کی زبردست خواہش اور کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈلوا کر اس پر پابندیاں لگوائی جائیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم پاکستان کو گرے لسٹ سے نہ نکلنے دیا
جائے۔ یہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی ایف اے ٹی ایف آخر ہے کیا؟ تو اس کے بارے میں اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ یہ عالمی استعماری طاقتوں کا ایک جال ہے جو انہوں نے خاص طور پر مسلمان ملکوں کے لیے تیار کیا ہے جس میں انہیں پھنسا کر اپنا غلام بنایا جاسکے۔ اس وقت پوری دنیا کی معیشت پر عالمی استعماری طاقتیں اور خاص طور پر امریکا چھایا ہوا ہے۔ عالمی بینک ہو، آئی ایم ایف ہو یا دوسرے مالیاتی ادارے، سب امریکا کے کنٹرول میں ہیں، عالمی تجارت پر بھی اس کا قبضہ ہے، ایسی صورت میں جب ایف اے ٹی ایف کسی ملک کو بلیک لسٹ میں ڈال کر اس پر پابندیاں لگاتی ہے تو پوری دنیا میں اس کا اقتصادی و تجارتی بائیکاٹ کردیا جاتا ہے اور وہ ملک بے دست و پا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے اور بعض ایسے اقدامات کررہا ہے جن کا کسی حوالے سے بھی کوئی جواز نہیں ہے۔
حافظ سعید کی سزا اور ان کی جماعت پر پابندی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، حافظ صاحب ایک مذہبی جماعت ’’جماعتہ الدعوۃ‘‘ کے قائد اور ایک فلاحی تنظیم ’’فلاح انسانیت فائونڈیشن‘‘ کے سربراہ ہیں۔ ان دونوں تنظیموں کا مبینہ دہشت گردی یا غیر قانونی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ایف اے ٹی ایف کے ٹارگٹ کے مطابق ان پر پابندی لگادی گئی ہے۔ جماعتہ الدعوۃ تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں مساجد کا ایک نظام چلا رہی تھی، پابندی لگنے سے اس کی تبلیغی سرگرمیاں
معطل ہوگئی ہیں اور اس کے زیر انتظام تمام مساجد سرکاری تحویل میں لے کر محکمہ اوقات کے حوالے کردی گئی ہیں۔ جہاں تک فلاح انسانیت فائونڈیشن کا تعلق ہے تو وہ پورے ملک میں بلا امتیاز فلاحی سرگرمیاں انجام دے رہی تھی۔ لاکھوں بیوائوں، یتیموں اور مساکین کی دیکھ بھال، انہیں ماہانہ راشن کی فراہمی، یتیم بچوں کے تعلیمی اخراجات، مریضوں کے لیے ادویات، موبائل ڈسپنسریوں کا بندوبست، ہنگامی طبی امداد کے لیے ایمبولینسوں کا وسیع نیٹ ورک اور قدرتی آفات میں متاثرین کی فوری امداد۔ یہ سارے کام فلاح انسانیت فائونڈیشن کے فرائض میں شامل تھے۔ پابندی لگنے سے ایف اے ٹی ایف کا ہدف تو پورا ہوگیا لیکن پاکستان میں لاکھوں ضرورت مند بے آسرا ہوگئے۔ پابندیوں کے بعد دونوں تنظیمیں کالعدم ہوگئیں۔ پھر ان کی رکنیت یا ان کے لیے غیر قانونی فنڈنگ کا کیا سوال؟ لیکن ان ہی دو الزامات کے تحت حافظ سعید صاحب کو قید و جرمانے کی سزا دی گئی ہے۔ اس سزا پر سب سے پہلے امریکا نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور اسے درست سمت میں درست اقدام قرار دیا ہے۔ امریکا کی خوشی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ معاملہ حافظ صاحب پر الزامات کا نہیں بلکہ اصل بات کچھ اور ہے۔ بھارت کے نزدیک تو حافظ صاحب انتہائی ناپسندیدہ شخصیت اس لیے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جہاد کی بات کرتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی جہاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ وہ ماضی میں ایک جہادی تنظیم کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں جب کہ امریکا کی حافظ سعید سے کیا پُرخاش ہے کہ ایک دفعہ وہ ان کے سر کی قیمت بھی لگا چکا ہے اور حافظ صاحب کو سزا دلوانے کے لیے وہ پاکستان پر مسلسل دبائو ڈالتا رہا ہے۔ ہمارے
نزدیک اس کی واحد وجہ حافظ صاحب کی نظریہ جہاد سے غیر متزلزل وابستگی ہی ہے جس نے امریکا سمیت تمام استعماری طاقتوں کو ان کے خلاف کردیا ہے۔ پاکستان میں بھی تمام سیکولر عناصر ان کی جان کے پیاسے ہیں۔ امریکا کے خلاف افغان جہاد میں اگرچہ حافظ سعید صاحب کا کوئی کردار نہیں ہے، ماضی میں ان کی ساری توجہ کشمیر پر مرکوز رہی ہے لیکن امریکا حافظ صاحب کو افغان طالبان کا پرجوش حامی سمجھتا ہے اور پاکستان میں افغان طالبان کے حامی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔
اندریں حالات ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ حافظ سعید صاحب کو جرم بے گناہی کی سزا دی گئی ہے۔ ابھی ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔ اب دیکھیے دہشت گردی کی خصوصی عدالت ان مقدمات میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ مقدمات بھی غیر حقیقی اور لایعنی ہیں۔ حافظ صاحب دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ شدید جذبات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن جہاد کو بہرکیف وہ اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں جب کہ امریکا اور دیگر استعماری طاقتوں کے نزدیک جہاد اور دہشت گردی ہم معنی الفاظ ہیں۔ اِن طاقتوں نے جہاد کو دہشت گردی سے جوڑ رکھا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان قرآن کے نظریہ جہاد سے دستکش ہوجائیں۔ اس مقصد کے لیے وہ مسلمان ملکوں کے تعلیمی نصاب سے بھی قرآن کریم کی وہ آیات نکلوا رہی ہیں جن میں جہاد پر زور دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں حافظ سعید صاحب کے خلاف دہشت گردی کیس کی سماعت میں بہت سے خدشات پوشیدہ ہیں کیوں کہ پاکستان کے قانون میں بھی دہشت گردی کی آخری سزا موت ہے اور حافظ صاحب کے کیس میں عالمی طاقتیں خاص طور پر امریکا پاکستان پر دبائو ڈال سکتا ہے۔ کیا پاکستان اس دبائو کا مقابلہ کرسکے گا؟ آخر حکومت کو حافظ صاحب کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟