اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی باتیں… حالات اقدام کے متقاضی ہیں

326

حامد ریاض ڈوگر
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس گزشتہ ہفتے پاکستان کے دورے پر تشریف لائے جس کے دوران انہوں نے پاکستان کی اعلیٰ قومی، سیاسی اور فوجی قیادت سے اہم ملاقاتیں کیں۔ اسلام آباد میں افغان مہاجرین سے متعلق دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس، موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق تقریب کے علاوہ انہوں نے متعدد دیگر پروگراموں میں بھی شرکت کی۔ انہوں نے وفاقی دارالحکومت میں پاکستانی وزارت خارجہ کا دورہ بھی کیا، جہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران مسٹر انتونیو گوتریس نے واضح الفاظ میں پیغام دیا کہ خطے میں امن اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد ضروری ہے۔ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے زور دیا کہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کا احترام بہر صورت کیا جانا چاہیے۔ جموں و کشمیر میں جاری کشیدگی اور کنٹرول لائن پر آئے روز سیز فائر کی خلاف ورزیوں سے متعلق ان کا موقف تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو مستقل تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اس ضمن میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ایل او سی پر خدمات سر انجام دیتے رہیں گے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی جبر سے متعلق مسٹر انتونیو گوتریس نے بتایا کہ ان کے پاس انسانی حقوق کمشنر کی دو رپورٹیں موجود ہیں جن میں وہاں کی صورت حال کی مکمل عکاسی کی گئی ہے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے میں دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کا حامی ہوں اور پاکستان اور بھارت چاہیں تو ان کے درمیان سہولت کاری کر سکتا ہوں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان اور بھارت کے مابین آبی تنازعے کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کا ایک باقاعدہ آبی معاہدہ موجود ہے جس میں عالمی بینک ضامن ہے تاہم پانی کو ہتھیار نہیں بلکہ امن کا ضامن ہونا چاہیے۔ پاکستان میں اسی فی صد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔ بھارت کے ساتھ موثر بات چیت کے ذریعے پاکستان کا پانی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی باتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بہت حقیقت پسندانہ محسوس ہوتی ہیں اور ان کے مختلف معاملات سے متعلق حقائق کے ادراک کا پتا دیتی ہیں۔ تاہم اس ضمن میں تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ غاصب بھارت کی انتہا پسند قیادت اس طرح کی اصولی باتوں کو پر کاہ کے برابر بھی اہمیت دینے پر آمادہ نہیں بلکہ الٹا منفی رد عمل کا اظہار کرتی ہے۔ حال ہی میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے دورۂ پاکستان کے دوران بھارتی قیادت کو آئینہ دکھایا تو بھارتی حکمرانوں نے اس پر شدید تلملاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے صدر اردوان کے بیان کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ کشمیر کے بھارت کا اٹوٹ انگ اور اندرونی مسئلہ ہونے پر اصرار کیا۔ قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی بھارت ایک سے زائد بار مسترد کر چکا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت مختلف بین الاقوامی تنظیموں اور عالمی رہنمائوں کی طرف سے کشمیر میں بھارت کے ریاستی مظالم کی نشاندہی اور تنقید پر بھی بھارت نے ہمیشہ منفی رد عمل ہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس کی ایک تازہ مثال برطانوی رکن پارلیمنٹ اور کشمیر کے لیے کل جماعتی پارلیمانی گروپ کی چیئرپرسن ڈیبی ابراہمز کی بھارت آمد پر سامنے آئی ہے، خود ڈیبی ابراہمز کے بقول بھارت میں ان کے ساتھ مجرموں کی طرح برتائو کیا گیا، آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا مودی حکومت نے انہیں ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنایا اور دہلی کے ہوائی اڈے پر ان کا ای ویزہ مسترد کر کے انہیں واپس برطانیہ ڈی پورٹ کر دیا… ایک رکن پارلیمنٹ سے اس طرح کے شرمناک طرز عمل کی کسی مہذب ملک سے توقع یقینا نہیں کی جا سکتی۔ بھارت کی مودی سرکار نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے سہولت کاری اور ثالثی کی پیشکش کو ٹھکرانے میں بھی کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اور انتونیو گوتریس کے بیان کے فوری بعد تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پوری ڈھٹائی سے اسے مسترد کر دیا گیا ہے…!
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے فریقین کو مکمل تحمل کا مشورہ بھی دیا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ یک طرفہ تحمل کب تک ممکن ہے۔ ایک فریق کی جانب سے جب مسلسل اشتعال انگیزی کی جا رہی ہو اور وہ کسی تیسرے فریق کی بات سننے پر بھی آمادہ نہ ہو تو زیادہ دیر تک یک طرفہ تحمل بہر حال ناممکن ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل یقینا اس امر سے لاعلم نہیں ہیں کہ پانچ اگست کو بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارت کے زیر قبضہ وادی کشمیر مسلسل فوجی محاصرے میں ہے تمام کشمیری قیادت پس دیوار زنداں ہے۔ اور کم و بیش سات ماہ سے وہاں سخت کرفیو نافذ ہے جس سے وہاں کے باشندوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، اسی طرح سو فی صد مذہبی امتیاز پر مبنی شہریت کا قانون بھی بھارتی حکومت پارلیمنٹ سے منظور کروا چکی ہے جس کے خلاف وہاں کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال نہایت اہم ہے کہ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کا ادارہ کب تک ’ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم، کی کیفیت سے دو چار رہے گا، ٹھوس ثبوت کے بغیر محض الزامات کی بنیاد پر اگر افغانستان اور عراق کے خلاف لشکر کشی کی جا سکتی ہے، ایران پر معاشی معاشرتی اور سفارتی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں اور پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی جکڑ بندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو آخر بھارت کے خلاف کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیوں ممکن نہیں، جس کے نتیجے میں بھارتی مسلمانوں کو شہریت کے امتیازی قانون اور مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو ریاستی ظلم اور جبر سے نجات مل سکے؟؟