نقطہ نظر

302

’’کیا ہم روشن خیال قوم ہیں‘‘
دورِ حاضر میں بظاہر ہمیں تو کچھ یوں ہی لگتا ہے کہ ہم ایک روشن خیال قوم بن رہے ہیں لیکن شاید کیا حقیقت بھی کچھ یوں ہی ہے یا پھر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چلیے آج اس نکتہ نظر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ہمارے تصور میں روشن خیالی کا عام مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ اگر ہم اپنی بیٹیوں، بہنوں کو مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھنے کی اجازت دیں یا پھر انہیں جینز پہن کر، کھلے بالوں کے ساتھ، میک اپ اور فیشن کرکے بازاروں میں آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت دیں تو یہ ہماری روشن خیالی تصور کی جاتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس اُن لوگوں کو جو اسلام کے سنہری اصولوں کے پابند ہیں اور باعمل مسلمان ہیں انہیں تنگ نظر سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہم مذہب اسلام کی تعلیمات کی بات کریں اور عورتوں کے حقوق کے امور پر روشنی ڈالیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جتنی آزادی، عزت اور وقار عورت کو اسلام نے عطا کیا ہے وہ کسی اور مذہب میں اب تک نہیں ملتا۔ مغربی قوموں سے متاثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان پردے کے نام پر عورت کو قید کیا جاتا ہے جب کہ اسلام کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پردے میں رہتے ہوئے ازواج مطہرات نے بے شمار کام سرانجام دیے ہیں۔ مثال کے طور پر سیدہ عائشہؓ نے اصحاب صفہ کے صحابیوں کو احادیث کی تعلیم دی اور مختلف غزوہ میں بھی ازواج مطہرات نے نرسنگ کا کام سرانجام دیا۔ ہمارے اس معاشرے میں ایک بیوہ کا دوسری شادی کرنا، بیٹی والوں کا خود لڑکے والوں کے گھر رشتہ دینا یا پھر خود لڑکی کا کسی لڑکے کے لیے شادی کا اظہار کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا مذہب اسلام ہی درحقیقت ایک روشن خیال مذہب ہے۔ یہ بات ہم میں سے بیشتر لوگوں کو معلوم ہے لیکن شاید غور ہی نہیں کیا کہ آپؐ سیدہ خدیجہؓ سے شادی کے وقت کنوارے تھے اور سیدہ خدیجہؓ ایک بیوہ تاجر عورت تھیں۔ آپؐ کی عمر مبارک نکاح کے وقت 25 اور سیدہ خدیجہؓ کی عمر 40 برس تھی اور نبی اکرمؐ کی ایمانداری سے متاثر ہو کر سیدہ خدیجہؓ نے پیارے آقاؐ کو شادی کا پیغام خود بھیجا تھا۔ سیدہ فاطمہؓ کی شادی کی عمر ہوئی تو خود ہمارے پیارے نبیؐ نے سیدنا غلیؓ سے سیدہ فاطمہؓ کا رشتہ طے کیا۔ آج جو باتیں ہمارے اس تصوراتی روشن خیال معاشرے میں اب تک معیوب سمجھی جاتی ہیں اس کی عملی مثال ہمارے مذہب اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں۔ ہمارا معاشرہ مغربی طرزِ زندگی سے متاثر ہو کر دین اور دنیا میں تباہی و بربادی کا سبب بنتا جارہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اس المیے کو محسوس کرتے ہیں لیکن پھر بھی اسلام سے دوری ہے، پھر بھی ہمارے اعمال میں درستی نہیں، کوتاہی اور گناہ کے راستے کو ہی ترقی سمجھ کر تباہی کے راستے پر گامزن ہیں۔ اللہ ہم سب کو دین اسلام کی سمجھ عطا کرے اور عمل صالح کی توفیق دے (آمین)۔
رخسانہ انجم