!!قصہ 35 اے اور 370 کا… ایک نظر ماضی پر

456

شاہد محی الدین

انگریزوں سے آزادی حاصل ہوئے 70 برس سے زائد عرصہ بیت گیا۔ ہندوستان اور پاکستان دو قومی نظریہ کے تحت معرض وجود آگئے۔ اس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے بہت سارے افکار و نظریات اور تمام مذاہب کے لوگوں نے ہر قسم کی قربانیوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے تاریخ رقم کر دی۔ اگرچہ تقسیم ہند کے وقت مذہبی، تہذیبی اور جغرافیائی بنیادوں پر تمام ریاستوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے پورا حق دیا گیا اور ہندوستان اور پاکستان کا وجود عمل میں آگیا لیکن ارض کشمیر وہ واحد خطہ ہے جس کے باشندوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا حالانکہ بھارت نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ حالات سدھرنے کے ساتھ ہی کشمیریوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے پورا حق دیا جائے گا اور متعدد قراردادوں کے ذریعے اس وعدے کو بار بار دہرایا گیالیکن کشمیریوں کو دن میں تارے دکھا دیے گئے اور یہ وادی ایک متنازع خطہ بن کر تاریخ کے سیاہ ترین ابواب رقم ہوگیا۔
کشمیریوں کو کبھی مقامی حاکموں نے ظلم و درندگی کی چکی میں پیسا تو کبھی انگریزوں کے تسلط میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنی پڑی اور کبھی ڈوگرہ راج کے جابرانہ اور سفاکانہ ظلم و ستم کے تحت مظلومانہ اور محکومانہ زندگی گزارنی پڑی۔ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا خطہ بھی موجود ہے جو صرف 50 لاکھ روپوں کے عوض خریدا گیا ہو۔ یہ کشمیر کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دور تھا جب کشمیریوں پر متعدد قسم کے مظالم ڈھائے گئے۔ لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، ہزاروں خواتین کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا اور ہزاروں نوجوانوں کو اغوا کرکے انٹروگیشن سینٹرز میں ناقابل برداشت مظالم ڈھائے گئے۔ اگر ہم یوں کہیں گے کہ کشمیری عوام صدیوں سے ظلم و ستم کو سہتے آئے ہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ کتنی معصوم کلیوں کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا۔ آسیہ اور نیلوفر کیسے بھول سکیں گی ’کنن پوشپورہ میں دل کو دہلانے والی وہ اجتماعی عصمت دری‘ کے انسانیت سوز مناظر کشمیریوں کے دلوں میں پیوست ہوچکے ہیں۔ اسلامی تنظیموں کے ہزاروں کارکنان کو بڑی بے دردی کے ساتھ سر بازار گولیاں مار مار کر شہید کیا گیا۔ کتنے معصوم پھولوں کو ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہونا پڑا، کتنوں پر انٹروگیشن سینیٹرز میں اب بھی انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ اگر ان مظالم کو پوری وضاحت کے ساتھ رقم کیا جائے تو کتابوں کی کتابیں درکار ہیں۔
مہاراجا ہری سنگھ کا جابرانہ دور ختم ہوتے ہی اْس نے اکتوبر 1947ء میں جواہر لال نہرو کے ساتھ عارضی اور مشروط الحاق کے نام پر مسلم دشمنی کی آڑ میں کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ضم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس الحاق کی سب سے بڑا وجہ قبائلیوں کی کشمیر آمد قرار دیا گیا۔ سید علی گیلانی رقم طراز ہیں: ’’اکتوبر 1947ء میں ریاست کی حدود میں قبائلیوں کی آمد کو بہت بڑا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ اور دنیا کے انسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ فریب دیا جارہا ہے کہ قبائلیوں کی وجہ سے آنجہانی ہری سنگھ نے بھارت کی حکومت سے امداد طلب کر لی اور مشروط الحاق کے لیے ہوئے ۔ سرحدی قبائل واقعی ریاست میں داخل ہوگئے لیکن اس کی بنیاد یہ تھی کہ آنجہانی مہاراجا ہری سنگھ نے اپنی روایتی مسلم دشمنی کی وجہ سے تقسیم ہند کے آثار رونما ہوتے ہی جولائی 47ء کو اپنی فوج اور پولیس کے مسلمان سپاہیوں کو غیر مسلح کردیا تھا۔ اس کے بعد ریاست کے سرحدی علاقوں خاص طور پر پونچھ، راجوڑی اور جموں صوبے کے دوسرے سرحدی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کی مدد سے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔ اس قتل عام کی اطلاعات سرحد کے پار قریبی علاقوں تک پہنچ گئیں اور وہاں کے مسلمان قبائل اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے وادیٔ کشمیر میں داخل ہوگئے‘‘۔ (مسئلہ کشمیر حقائق کی روشنی میں۔ ص: 22)
نیز اس بات سے پتا چلتا ہے کہ الحاق کا اصل اور بنیادی مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور بغض ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے اور ابتداء ہی سے مختلف حربوں کے ذریعے کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ضم کرنے کی سازشیں رچائی جارہی تھیں۔ آسٹریلیائی محقق، تجزیہ نگار، مصنف اور تعلیمی ماہر برائے جنوبی ایشیاء کرسٹوفر سنیڈین نے بھی تاریخِ کشمیر پر اپنی کتاب “kashmir the unwritten history” میں مختلف دلائل و شواہد کی بنیاد پر اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ الحاق کی اصل اور بنیادی وجہ قبائلی حملہ نہیں تھا کیونکہ وہ قبائلیوں کو مقامی باشندوں میں شمار کرتے ہیں۔ انہوں نے قبائلی حملے کو اندرونی بغاوت سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ملاحظہ ہو: الیسٹر لیمب کی کتاب: Kashmir The disputed legacy، تولین سنگھ کی کتاب Kashmir: a tragedy of errors اور بھی بہت ساری کتب جن میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ الحاق کے جو دلائل لوگوں کے سامنے پیش کیے جاتے رہے ہیں وہ دراصل مشکوک ہیں۔ اور اِن تصانیف میں اصل حقیقت کو واضع کرنے کے لیے بہت سارے حقائق کا پردہ فاش کیا گیا ہیں۔
اگر تاریخ کا دوسرا پہلو لیا جائے تو الحاق کی رو سے ایک چیز کو ریاست کے مفاد کے طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ یہ کہ ہندوستان کے کسی بھی آئین کو ریاست جموں و کشمیر پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ اور دفعہ 370 کو ہندوستان کے آئین میں شامل کرنے کو خوش آئند قدم قرار دیا گیا کیونکہ اسی آئین کے تحت ریاست کے یونین آف انڈیا کے ساتھ تعلقات واضع ہوگئے۔ ایک طرف دفعہ 370 کو یونین آف انڈیا کے ساتھ ریاست کے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے آئین ہند میں لاگو کیا گیا تو دوسری طرف 1954ء میں (The constitution Application to Jammu & kashmir order 1954) کے تحت 35-A کو آئینی حیثیت دیدی گئی جس میں ریاست کے باشندوں کو خصوصی اور قانونی طور پر تسلیم شدہ تحفظات فراہم کیے گئے۔ دفعہ 370 کی شق 1(A) میں کہا گیا ہے کہ آئین ہند کی دفعہ 238 ریاست جموں و کشمیر پر لاگو نہیں کی جاسکتی۔ نیز اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ شق 1(B) میں ہندوستان کے ریاستوں پر پارلیمنٹ قانون سازی اختیارات سے بحث کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ:-
(جاری ہے)
الف: ریاست کے لیے ہندوستان کی پارلیمنٹ کو ریاست کے حکومت کی اتفاق کے ساتھ صرف ان معاملات پر قانون سازی کے اختیارات ہوں گے جو ریاست کے الحاق میں یونین لسٹ اور کنکرنٹ لسٹ میں شامل کردیے گئے ہیں، اس کے علاوہ پارلیمنٹ کا کوئی بھی قانون ریاست جموں و کشمیر پر نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
ب: دوسرے ایسے معاملات جو ریاست کی حکومت کے اتفاق سے اور صدر ہند کے حکم نامے سے منظور کیے جائیں۔
شق 1 (C) میں واضع طور پر کہا گیا ہے کہ دفعہ 370 کے ذریعے ہی ہندوستان کے آئین کی پہلی دفعہ کا اطلاق کشمیر پر ہوسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ دفعہ 370 ہٹ جانے کے بعد کشمیر قانونی طور پر ہندوستان سے الگ ہوجاتا ہے۔
دفعہ 35-A کے مطابق… آئین ہند میں موجود ہونے کے باوجود ہر کوئی قانون جو ریاست میں نافذالعمل ہو ریاست کے اسمبلی کا کوئی بھی نافذ شدہ قانون جو۔
1: کسی فرد یا طبقہ کے مستقل باشندہ ہونے کی وضاحت کرتا ہو۔
2: کسی بھی فرد کو حسب ذیل معاملات میں ایسے حقوق اور ایسے استحقاق عطا کرتا ہو یا کسی فرد کے اوپر قدغنیں اور پابندیاں عائد کرتا ہو
الف: سرکاری نوکری کے معاملے میں۔
ب: غیر منقولہ ملکیت کے حصول کے لیے۔
ج: ریاست میں رہائش کے لیے۔
د: حقوق، وظیفہ اور دیگر ایسی سرکاری امداد و مراعات کو اس بنیاد پر باطل اور کالعدم قرار دیا جائے گا کہ یہ مستقل باشندوں کے حق سے متضادم ہے یا اس بنیاد پر کہ یہ ان کے کسی حق کو چھین لیتا ہے یا نقصان پہنچاتا ہے۔
اس سے پتا چلا کہ 35 اے کے مطابق کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ ریاست جموں و کشمیر میں سرکاری نوکری کے لیے امید وار نہیں بن سکتا نہ ہی رہائش کے لیے یہاں کی زمین خرید سکتا۔ یہ اس لیے کہ اسے ریاست کی تہذیب، ثقافت، تمدن، آبادی کا تناسب اور شناخت وغیرہ تبدیل ہوسکتی ہے اور نہ ہی سرکاری امداد و مراعات اور دیگر ایسی سرکاری پیش رفت کو لوگوں کی مرضی کے بغیر ریاست جموں و کشمیر کی حدود کار میں لایا جاسکتا تھا جسے لوگوں کو تعمیر و ترقی کے نام پر کسی قسم کا خطرہ لاحق ہوسکتا تھا۔ نیز یہ بھی پتا چلا کہ 35 اے کے مطابق غیر ریاستی شہری سے بیاہی جانے والی کشمیری عورت ملکیتی حقوق سے محروم ہوجاتی ہے۔ اصل اور واضع حقیقت نہ ہی وہ ہے جو عصر حاضر کی مرکزی سرکار لوگوں کو سمجھانے کی کوشش میں لگی ہے اور نہ ہی چند مخصوص طبقات کے خدشات کہ ’’ترقی کی راہوں میں رکاوٹ دراصل آرٹیکل 370 ہے‘‘۔ اگر ایسا ہوتا تو اسپیشل اسٹیٹس نہ ہونے کے باوجود بہار، گجرات، اتر پردیش اور دیگر کئی ریاستیں معاشی طور پر ریاست جموں و کشمیر سے پسماندہ نہ ہوتیں۔ ریاست جموں و کشمیر کے پسماندہ ہونے کی سب سے بڑا وجہ یہ ہے کہ مرکزی سرکار لوگوں کے دل جیتنے اور امن و امان (جس کی تلاش کے لیے یہاں کی عوام صدیوں سے ترس رہے ہیں) کو قائم کرنے میں ہمیشہ ناکام و نامراد رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست اور مرکزی سرکار کے تعلقات کو واضع کرنے کے لیے ایک طرف دفعہ 370 کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا۔ اور دوسری طرف 35 اے کو آئین میں لانے کا مقصد ریاستی باشندوں کو خصوصی تحفظ فراہم کرنا مطلوب و مقصود تھا۔ اصل میں 35 اے دفعہ 370 کا ہی جزو لاینیفک ہے یا یوں کہیں گے کہ دفعہ 370 اور 35 اے ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں۔
35 اے کو ہٹانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ریاست کی تہذیب و تمدن ثقافت، سیاست، مذہب اور شناخت کو ہر سمت سے خطرہ لاحق ہے۔ سرکاری نوکریاں تمام ہندوستانی باشندوں کے لیے قانونی طور پر جائز قرار دی جا چکی ہیں۔ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ بھی جتایا جارہا ہے۔ مرکزی سرکار کا یہ دعویٰ کہ دفعہ 370 کی برخواستی ریاست جموں و کشمیر کے لیے خوش آئند قدم ہے آگے جاکر چند سال ہی میں پتا چل جائے گا کہ اس کو ہٹانے کا اصل مقصد کیا تھا۔ بہت سارے صحافیوں، تجزیہ نگاروں، ماہرین، قانون دان اور سیاست دانوں نے اس قدم کو تشویش سے تعبیر کیا اور چند نے اس قدم کو ریاست کی تعمیر و ترقی سے تعبیر کیا۔ مرکزی سرکار کی نیت کیا ہے یہ تو خدا ہی جانتا ہے لیکن ریاست کے باشندوں کو چوکس اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ہمارے جذبات اور احساسات کی لاج رکھی جائے تاکہ ہم بھی تاریکیوں کے اس دور سے نکل کر امن و آشتی اور پوری آزادی اور حقوق انسانیت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ (میری بہن لالی کے نام جس نے میرے دل سے بہن نہ ہونے کا بوجھ ہلکا کر دیا)۔