کراچی کو آکسیجن فراہم کرنے والا ملیر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا

1148

کراچی(اسٹاف رپورٹر)کراچی کو آکسیجن، تازہ سبزیاں اور رسیلے پھل فراہم کرنے والا ملیر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا، ملیر ندی میں کیرتھر کے پہاڑی سلسلے سے آنے والا شفاف اور صحت بخش پانی، صنعتی فضلے، سیوریج کی گندگی اور ہائی وے پر بنے بھینسوں کے باڑوں نے آلودہ کردیا ہے،

ملیر کو کراچی کا آکسیجن ٹینٹ کہا جاتا ہے، جہاں میلوں تک پھیلی ہریالی اس مثال کو سچ ثابت کر رہی ہے۔ملیر وہ علاقہ بھی ہے جو کراچی والوں کو تازہ سبزیاں اور رسیلے پھلوں کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے،

تاہم حکومتی عدم توجہی، بلدیہ عظمیٰ کراچی کی مجرمانہ غفلت کے سبب یہ قیمتی ذریعہ بربادی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے،

قائدآباد پل سے سمندر کی جانب ملیر ندی تو پہلے ہی فیکٹریوں کے کیمیائی فضلے اور سیوریج کی گندگی کے باعث آلودہ ہوچکی ہے، جبکہ قائد آباد سے سپر ہائی وے کی جانب بچا کچا حصہ بھی تیزی سے آلودہ ہوتا جارہا ہے،

سپر ہائی وے کے اطراف بھینسوں کے سیکڑوں باڑوں سے آنے والی غلاظت نالوں کے ذریعہ میمن گوٹھ کے مقام پر براہ راست ملیر ندی میں ڈالی جارہی ہے جبکہ نالوں میں جگہ جگہ مرے ہوئے جانور بھی پڑے ہوتے ہیں،انگریز دور میں ملیر ندی میں ڈملوٹی کے مقام پر بنے کنویں آج بھی کراچی کو پینے کے پانی کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہیں، ندی کے اندر پتھروں سے بنی لمبی لمبی سرنگیں ہیں،یہاں زیرِ زمین پانی رس کر انہی سرنگوں کے ذریعہ ڈملوٹی کے کنوؤں میں جمع ہوتا اور وہاں سے شہر لایا جاتاہے،

کینجھر جھیل سے آنے والی پینے کے پانی کی لائنیں بھی ملیر ندی سے گزرتی ہیں، ندی میں آنے والا غلیظ پانی ڈملوٹی کے کنوؤں کے اطراف بھی جمع ہوگیا ہے جبکہ اب یہی پانی رس کر کنوؤں میں جارہا ہے اور یہی پانی کراچی کو سپلائی ہو رہا ہے،

ندی کے اطراف میں موجود ریت جو پانی کو فلٹر کرنے کا قدرتی ذریعہ تھا وہ چوری کی جا چکی ہے۔ملیر کے ایک کاشتکار صدیق بلوچ نے درخواست دائر کی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اس معاملے پر ازخود نوٹس لیں،

صدیق بلوچ صرف اپنا نہیں کراچی کے شہریوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں اگر یہ اپنی جدوجہد میں ناکام ہوگئے تو خدشہ ہے کہ کراچی صاف پانی، تازہ ہوا اور پھلوں اور سبزیوں سے محروم ہوجائے گا،

اگر حکومتی اداروں نے توجہ نہ دی تو ایک طرف فضائی آلودگی بڑھے گی جبکہ دوسری طرف شہر کی غذائی ضرورت پوری کرنے والا ایک قیمتی ذریعہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔