صدیق بلوچ کی روح آزاد ہوگئی

908

پروفیسر امان اللہ شادیزئی
بلوچستان کے ممتاز صحافی دانشور صدیق بلوچ سے تعلق اس وقت قائم ہوا جب گورنر بلوچستان غوث بخش بزنجو کی رخصتی کے ساتھ وہ بھی رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے فاطمہ جناح روڈ پر کتابوں کی ایک دکان کھولی۔ جس میں اکثریت سوویت یونین سے متعلق کتابوں کی تھی۔ ان سے اکثر ملاقاتیں دکان پر ہوتی تھیں وہ اکیلے ہی بیٹھے ہوتے تھے۔ جب بھٹو نے نیپ کی حکومت الزامات لگا کر ختم کردی تو تھوڑے عرصے کے بعد نیپ کے کارکنوں اور بی ایس او کے نوجوانوں نے پہاڑوں کا رُخ کیا اور مسلح جدوجہد شروع ہوگئی۔
1973ء میں نیپ کی حکومت ختم کردی گئی تو اس غلط اقدام کے خلاف منان چوک پر بھٹو کے اقدام کے خلاف تقریریں ہوئیں۔ میرے ساتھ اس وقت علی احمد کرد، امان بازئی اور عطا اللہ بزنجو نے بھی تقریر کی۔ اس تقریر کو بھٹو نے باغیانہ قرار دیا اور بغاوت کا مقدمہ قائم کردیا۔ نواب بگٹی گورنر بلوچستان تھے اور ہم سب دوست نواب بگٹی کے قیدی بن گئے۔ 1973ء کے آخر میں مجھے ضمانت پر رہائی مل گئی تو بے روزگاری تھی۔ مجیب الرحمن شامی کے ہفت روزہ میں بلوچستان کے سیاسی حالات پر تجزیہ لکھنا شروع کیا۔ جیل سے نکلا تو بی ایس او اور نیپ کے کارندے مجھے مسلح جدوجہد کے حوالے سے خبریں بنا کر دیتے تھے۔ میں ہفت روزہ زندگی میں لکھتا تھا۔ صدیق بلوچ نے اس عرصے میں ایک اور اہم کام کیا۔ اس کا علم بہت سے دوستوں کو نہیں ہوگا، وہ مسلح جدوجہد کی تحریری کارروائیوں کو سائیکلواسٹائل کرکے تقسیم کرتے تھے۔ یوں پہاڑوں پر مسلح جدوجہد کی کارروائیوں سے لوگوں کو آگاہ کرتے تھے۔
میری صدیق بلوچ سے جب بھی ملاقات ہوئی تو انہیں بتلایا کہ ان کے بلیٹن میرے پاس ہیں تو خوب ہنستے تھے۔ ان کی گرفتاری کا سبب یہ بلیٹن ہی بنے۔ میں فاطمہ جناح روڈ سے ہوتے ہوئے جناح روڈ جاتا تو صدیق بلوچ سے ملاقات ضرور ہوتی۔ ایک دن اس طرف گیا تو دکان پر تالا لگا ہوا تھا علم ہوا کہ پولیس انہیں گرفتار کرکے لے گئی ہے۔ ان کی گرفتاری کا سبب سرمچاروں کی سرگرمیوں کو بلیٹن کی صورت میں تقسیم کرنا تھا، یوں وہ جیل چلے گئے۔ وہ انگریزی اخبار ڈان کے نمائندے تھے۔ جب رہا ہوئے تو ان کی سرگرمی بطور صحافی شروع ہوگئی۔ خبریں بنانے کا انہیں ملکہ حاصل تھا۔ پھر انہیں کوئٹہ سے اخبار نکالنے کا خیال آیا۔ انگریزی اخبار بلوچستان ایکسپریس اور پھر روزنامہ آزادی نکالا، ورکنگ جرنلسٹس کا سفر اخباری مالکان کی منزل پر آکر ٹھیر گیا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو اس فیلڈ میں داخل کردیا اور اپنا تجربہ ان تک منتقل کیا۔
وہ حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک تھے۔ بیک وقت انگریزی اور اردو اخبار نکالنا یہ ایک عام شخص کا کام نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کردیں۔ وہ اکثر ویسپا اسکوٹر پر پریس کلب اور دیگر تقریبات میں شریک ہوتے۔ ان کا ذہنی سفر سوشلزم سے ہوتے ہوئے بلوچ نیشنلزم کی طرف آگیا۔ صحافت کے اس میدان میں روزنامہ اخبار موجود تھا اور ان کے ذہن میں تھا کہ جہاں انتخاب جائے وہاں آزادی بھی پہنچ جائے۔ انگریزی اخبار کا پڑھنا ذرا مشکل ہے۔ صدیق بلوچ کا انگریزی اخبار بلوچستان ایکسپریس ڈان کی جگہ نہیں لے سکا مگر آزادی نے اپنا ایک مقام بنالیا لیکن پشتون علاقوں میں آزادی اپنی جگہ نہیں بناسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے صدیق بلوچ کا ذہنی جھکائو بلوچ نیشنلز کی طرف بہت زیادہ تھا اور اس حوالے سے انتخاب سے بھی زیادہ رجحان بلوچ ازم کی طرف تھا۔ انتخاب بھی پشتون بیلٹ میں پیش رفت نہ کرسکا۔ انور ساجدی نے اس خارزار میں قدم رکھا تو انتخاب کو ایک مقام تک پہنچایا۔ اب ساجدی نے بالاچ کے نام سے کالم لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اب اداریہ بھی کبھی کبھی لکھتا ہے۔ اس کی اردو کمال کی ہے۔ گفتگو میں اس کی اردو کمزور ہے مگر ایک بلوچ کا خوبصورت اردو لکھنا یہ کمال کی بات ہے۔ مطالعہ کا شوقین ہے، پیپلز پارٹی سے محبت کا خمار ایک طرح سے اُتر گیا ہے۔
صدیق بلوچ کا صحافتی سفر زندگی کا چراغ گل ہونے کے ساتھ ختم ہوگیا۔ اب ان کی یادیں رہ گئی ہیں۔ دونوں اخبار صدیق بلوچ کا نام زندہ رکھیں گے۔ بلوچستان سے مہاجرین کے انخلا کے زبردست حامی تھے۔ اس حوالے سے وہ مسلسل اداریے لکھتے تھے۔ ان کے ذہن میں فاٹا کو صوبہ بنادینا ناقابل برداشت تھا۔ وہ ذہنی طور پر اس سے خوفزدہ تھے کہ فاٹا صوبہ بنا تو خالص پشتون صوبہ ہوگا اور سینیٹ میں پشتونوں کے دو صوبوں کی نمائندگی ہوجائے گی۔
ان کے ذہن میں ایک سیاسی خوف تھا۔ کئی سال پہلے میں نے ایک کالم لکھا کہ فاٹا کو علیحدہ صوبہ ہونا چاہیے۔ وہ ایک خالص پشتون آبادی والا صوبہ ہوگا۔ میری اب بھی پختہ رائے یہ ہے کہ فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانا چاہیے۔ اس سے سینیٹ میں پنجاب کی بالادستی کو ایک تاریخی جھٹکا لگے گا اور بڑے صوبے کی عددی برتری سینیٹ میں ختم ہوجائے گی لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کو کبھی برداشت نہیں کرے گی کہ پنجاب کی بالادستی کو نقصان پہنچے۔ اس سوچ نے مشرقی پاکستان کو 1970ء کے انتخاب کے بعد علیحدہ کرنا پسند کیا لیکن اپنی آبادی کی برتری کو قائم رکھنے کے سیاسی جنون نے بنگالیوں کو بنگلادیش بنانے کی طرف مائل کیا اب امریکا بھی چاہتا ہے کہ فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانے کے بجائے اسے کے پی کے میں ضم کردیا جائے۔
1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے منشور میں ایک اہم حصہ یہ تھا کہ بہاول پور کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے۔ عددی برتری کے منفی اثرات کا ادراک تھا اس لیے یہ نہیں کہا کہ پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرو بلکہ خوبصورتی سے بہاول پور کو صوبے کا درجہ دینے کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ اب وہ بھی فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کی بات کررہی ہے اس پر جماعت اسلامی کو کھل کر رائے لینی چاہیے تھی اور بہاول پور کو صوبائی درجہ دینے کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے تھا۔ میری رائے یہ ہے کہ فاٹا کو فاٹا رہنے دیا جائے یا اسے صوبائی درجہ دیا جائے۔ تیسرا راستہ تاریخی اور سیاسی لحاظ سے چھوٹے صوبوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ صدیق بلوچ کو بھی یہ خوف لاحق تھا کہ سینیٹ میں پشتون صوبے کا اضافہ بلوچوں کے لیے نقصان ہوگا۔ اس لیے بلوچ قوم پرست پارٹیوں کو بھی یہ خوف لاحق ہے کہ اس طرح پشتون بالادستی سینیٹ میں واضح نظر آئے گی۔ سندھ میں بلوچ سندھی نیشنلزم میں ضم ہوگئے ہیں، سندھی نیشنلزم نے بلوچ قوم پرستی کو ایک لحاظ سے ہڑپ کرلیا ہے سندھ میں پیپلز پارٹی نے سندھی قوم پرستی کو اپنے دامن میں چھپالیا ہے اور سندھی نیشنلزم کا حامی ہوگیا ہے۔ صدیق بلوچ کے اداریے ان کے ذہنی رجحان کی زبردست عکاسی کرتے تھے۔ انہوں نے بلوچستان کا مقدمہ اپنے اداریوں کے ذریعے لڑا۔ ایران کے حوالے سے ان کے تمام اداریے کافی حد تک مثبت تھے اور ایران میں انقلابی تبدیلی کے زبردست حامی تھے۔ حسن اتفاق سے ہم دونوں انقلاب ایران کی تقریبات میں ایک ساتھ ہوتے تھے۔ احمدی نژاد صدر تھے انہیں پہلی دفعہ دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ احمدی نژاد کی تقریر کے دوران لاکھوں لوگ مرگِ بر امریکا کے نعرے لگارہے تھے تو صدیق بلوچ نے کہا کہ امریکا ایران کا کیوں مخالف ہے، آج اندازہ ہوگیا کہ عالم اسلام میں ایران وہ واحد ملک ہے جہاں صدر مملکت کی موجودگی میں مرگ بر امریکا کے نفرت انگیز نعرے گونج رہے تھے۔ صدیق بلوچ کا ذہن اس دورے کے بعد ایران کی انقلابی تبدیلی کی طرف مائل ہوگیا۔انسان چلا جاتا ہے اور اس کی یادیں رہ جاتی ہیں۔ اہل صحافت کو چاہیے کہ ان کو فراموش نہ کریں۔ گاہے گاہے انہیں کسی نہ کسی حوالے سے یاد کرلینا چاہیے۔ مجھے اُمید ہے کہ صدیق بلوچ کے فرزند اور ان کے عزیز لالا کے مشن کو جاری رکھیں گے۔