فروغ نسیم، انور منصور۔ جھوٹا کون ہے؟

825

بات ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ حکومت نے اپنی نا لائقی کا ایک اور ثبوت فراہم کر دیا۔ اٹارنی جنرل انور منصور کہتے ہیں کہ انہوں نے از خود استعفا دیا ہے، ان سے کسی نے استعفا طلب نہیں کیا۔ جب کہ وزیراعظم کی ترجمان فردوس عاشق اس معاملے میں بھی خاموش نہ رہ سکیں اور فرمایا ہے کہ انور منصور سے استعفا لیا گیا ہے۔ وزیر قانون فروغ نسیم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ انور منصور سے استعفا طلب کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے حکومت کا موقف ہی قرار دیا جائے گا۔ انور منصور اور حکومتی ترجمانوں میں سے کوئی ایک تو جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ بات بھی کئی بار سامنے آ چکی ہے کہ حکومت کی قانونی ٹیم کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ہے۔ اس کی نا لائقی پاک فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں سامنے آ چکی ہے اور اس میں جو کچھ ہوا اس کی بنیادی ذمے داری وفاقی وزیر قانون پر عاید ہوتی ہے لیکن انہوں نے اس وقت بھی کوئی ذمے داری لینے سے انکار کر دیا تھا۔ انور منصور خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ بار کونسل کے مطالبے پر استعفا دیا ہے لیکن بار کونسل نے تو وزیر قانون فروغ نسیم سے بھی استعفا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس بار بھی دوسروں پر ذمے داری عاید کر دیں گے، وہ شاید عمران خان کی ضرورت بن چکے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا ایم کیو ایم سے تعلق ہے یا کوئی اور معاملہ ہے، یہ بھی جلد سامنے آجائے گا۔ اٹارنی جنرل اور وزیر قانون نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات عاید کیے ہیں۔ انور منصور کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے عدالت عظمیٰ میں ججوں کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ دراصل حکومت کا موقف تھا اور فروغ نسیم اس سے آگاہ تھے۔ فروغ نسیم نے اس پر اپنے فوری رد عمل میں کہا ہے کہ انور منصور جھوٹا ہے، میں تو اس کی بڑی عزت کرتا تھا مگر وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ ججوں پر الزامات کا ہمیں پتا نہیں تھا، حکومت کا ان الزامات سے کوئی تعلق نہیں۔ جس وقت انور منصور خان عدالت عظمیٰ میں ججوں پر الزامات عاید کر رہے تھے اس وقت وزیر قانون فروغ نسیم بھی عدالت میں موجود تھے چنانچہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اسی وقت وضاحت یا تردید کیوں نہ کی۔ اس کا کوئی واضح جواب ان کے پاس نہیں تھا۔ انور منصور کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے عدالت میں حکومت ہی کا موقف بیان کیا تھا جو ان کے علم میں لایا گیا تھا اور انہوں نے مناسب موقع پر اسے بیان کر دیا۔ عدالت عظمیٰ میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے سماعت ہو رہی ہے اور عدالت نے انور منصور کے بیان کا بڑا حصہ حذف کروا دیا ہے لیکن جو باتیں ذرائع ابلاغ میں آ چکی ہیں ان کے مطابق انور منصور نے الزام لگایا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو اپنا جواب تیار کرنے میں عدالت عظمیٰ کے تمام ججوں نے ان کی معاونت کی تھی۔ تمام معزز ججوں پر الزام عاید کرنا یقینا ایک سنگین معاملہ ہے لیکن اگر انور منصور کے مطابق یہ حکومت کا موقف تھا تو بات بہت دور تک جائے گی اور صرف انور منصور کے مستعفی ہونے تک نہیں رہے گی۔ مذکورہ مقدمے میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے بیرون ملک مقیم بیوی بچوں کے اثاثوں کی چھان بین کرائی گئی جس پر کئی لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ چنانچہ یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا حکومت ججوں کے اہل خانہ کی جاسوسی کروا سکتی ہے۔ یہ جاسوسی ایک سرکاری ادارے کے تحت کرائی گئی جس نے بیرون ملک جاسوس ایجنسیوں کی خدمات بھی حاصل کیں۔ اس پر بھی حکومت کو وضاحت کرنا ہو گی۔ فروغ نسیم کہتے ہیں کہ اٹارنی جنرل کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔ لیکن یہ ایسی بات ہے جس کا اطلاق فروغ نسیم سمیت پوری عمرانی حکومت پر کیا جا سکتا ہے۔ انور منصور کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ انہوں نے حکومت کا موقف بیان کیا تو بھی اتنے تجربہ کار اور قانون کے ماہر ہونے کے ناتے انہیں ججوں پر الزامات عاید کرتے ہوئے خود سوچنا چاہیے تھا۔ بہر حال ایک بار پھر یہ واضح ہو گیا ہے کہ سرکار کی پوری قانونی ٹیم بھی نا اہل ہے۔اب اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ استعفا لیا گیا یا خود دیا گیا۔ سپریم کورٹ بار کے مطالبے پر اٹارنی جنرل مستعفی ہو سکتے ہیں تو فروغ نسیم بھی اس پر عمل کر گزریں، خاص طور پر اس دعوے کے پیش نظر کہ انور منصور نے جو کچھ کہا وہ فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کے علم میں تھا۔ انور منصور نے اپنا وہ بیان واپس لے لیا تھا جس پر تنازع پیدا ہوا۔ گزشتہ بدھ کو عدالت عظمیٰ نے انور منصور سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یا تو معافی مانگیں یا انہوں نے پوری بینچ پر جو الزام لگایا ہے اس کا ثبوت پیش کریں۔ یہ طے ہے کہ انور منصور کے پاس اپنے الزام کا کوئی ثبوت نہیں ہو گا۔ ایسے میں استعفا دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب فوری طور پر نئے اٹارنی جنرل کا تقرر ہو گیا ہے اور لگتا ہے کہ انور منصور قصہ پارینہ ہو گئے۔