ؒامام ابو حنیفہ ،نعمان بن ثابت

1121

مولانا محمدنجیب سنبھلی

امام اعظم کا اسم گرامی ’’نعمان‘‘ اور کنیت ’’ابوحنیفہ‘‘ ہے۔ ولادت 80 ھ میں عراق کے شہر کوفہ میں ہوئی۔ آپ فارسی النسل تھے۔ والد کا نام ثابت تھا اور آپ کے دادا نعمان بن مرزبان کابل کے اعیان واشراف میں بڑی فہم وفراست کے مالک تھے۔ آپ کے پردادا مرزبان فارس کے ایک علاقے کے حاکم تھے۔ آپ کے والد ثابت بچپن میں سیدنا علیؓ کی خدمت میں لائے گئے تو علیؓ نے آپ اور آپ کی اولاد کے لیے برکت کی دعا فرمائی اور دعا اس طرح قبول ہوئی کہ امام ابوحنیفہؒ جیسے عظیم محدث وفقیہ اور عابد و زاہد شخصیت پیدا ہوئی۔
آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں ضروری علم کی تحصیل کے بعد تجارت شروع کی؛ لیکن آپ کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے علمِ حدیث کی معروف شخصیت شیخ عامر شعبی کوفی جنہیں پانچ سو سے زیادہ اصحابِ رسولؐ کی زیارت کا شرف حاصل ہے، نے آپ کو تجارت چھوڑ کر مزید علمی کمال حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ آپ نے امام شعبیؒ کے مشورے پر علم کلام، علم حدیث اور علم فقہ کی طرف توجہ فرمائی اور ایسا کمال پیدا کیا کہ علمی وعملی دنیا میں ’’امام اعظم‘‘ کہلائے۔ آپ نے کوفہ، بصرہ اور بغداد کے بے شمار شیوخ سے علمی استفادہ کیا اور حصول علم کے لیے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور شام کے متعدد اسفار کیے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے امام ابوحنیفہؒ کو عہدۂ قضا پیش کیا، لیکن آپ نے معذرت چاہی تو وہ اپنے مشورے پر اصرار کرنے لگا۔ چنانچہ آپ نے صراحۃً انکار کردیا اور قسم کھالی کہ وہ یہ عہدہ قبول نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے 146ھ میں آپ کو قید کردیا گیا۔ امام صاحب کی علمی شہرت کی وجہ سے قیدخانے میں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور امام محمدؒ جیسے محدث وفقیہ نے جیل میں ہی امام ابوحنیفہؒ سے تعلیم حاصل کی۔ امام ابوحنیفہ کی مقبولیت سے خوفزدہ خلیفۂ وقت نے امام صاحب کو زہر دلوادیا۔ جب امام صاحب کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں وفات پاگئے۔ تقریباً پچاس ہزار افراد نے نمازِجنازہ پڑھی، بغداد کے خیزران قبرستان میں دفن کیے گئے۔ 375ھ میں اس قبرستان کے قریب ایک بڑی مسجد ’’جامعُ الامام الاعظم‘‘ تعمیر کی گئی جو آج بھی موجود ہے۔ غرض 150ھ میں صحابہؓ وبڑے بڑے تابعینؒ سے روایت کرنے والا ایک عظیم محدث وفقیہ دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس طرح صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سے قاضی کا عہدہ قبول نہ کرنے والے نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا، تاکہ خلیفۂ وقت اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایسا فیصلہ نہ کراسکے جس سے مالکِ حقیقی ناراض ہوں۔
امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں نبی اکرمؐ کی بشارت:
مفسر قرآن شیخ جلال الدین سیوطی شافعی مصری (849ھ۔911ھ) نے اپنی کتاب ’’تبییض الصحیفۃ فی مناقب الامام ابی حنیفہؒ‘‘ میں بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں وارد نبی اکرمؐ کے اقوال: اگر ایمان ثریا ستارے کے قریب بھی ہوگا تو اہل فارس میں سے بعض لوگ اس کو حاصل کرلیں گے۔ (بخاری) اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس بھی ہوگا تواہلِ فارس میں سے ایک شخص اس میں سے اپنا حصہ حاصل کرلے گا۔ (مسلم) اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو حاصل کرلے گا۔ (طبرانی) اگر دین ثریا ستارہ پر بھی معلق ہوگا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کرلیں گے۔ (طبرانی) ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ نبی اکرمؐ نے امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں ان احادیث میں بشارت دی ہے اور یہ احادیث امام صاحب کی بشارت وفضیلت کے بارے میں ایسی صریح ہیں کہ ان پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔ شیخ ابن حجر الہیتمی المکی الشافعی (909ھ۔973ھ) نے اپنی مشہور ومعروف کتاب ’’الخیرات الحِسان فی مناقبِ امام ابی حنیفہ‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ شیخ جلال الدین سیوطیؒ کے بعض تلامذہ نے فرمایا اور جس پر ہمارے مشائخ نے بھی اعتماد کیا ہے کہ ان احادیث کی مراد بلاشبہ امام ابوحنیفہ ہیں؛ اس لیے کہ اہلِ فارس میں ان کے معاصرین میں سے کوئی بھی علم کے اس درجے کو نہیں پہنچا جس پر امام صاحب فائز تھے۔
وضاحت: ان احادیث کی مراد میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے؛ مگر عصرِ قدیم سے عصرِحاضر تک ہر زمانے کے محدثین وفقہا و علما کی ایک جماعت نے تحریر کیا ہے کہ ان احادیث سے مراد امام ابو حنیفہؒ ہیں۔ علمائے شوافع نے خاص طور پر اس قول کو مدلل کیا ہے، جیسا کہ شافعی مکتبۂ فکر کے دو مشہور جید علما کے اقوال ذکر کیے گئے۔