ؒافکار سید ابوالاعلیٰ مودودی

233

نیکی کا تصور
نیکی کو نہتّا چھوڑ دینا اور اللہ کی دی ہوئی قوتوں کو اس کی حفاظت کے لیے استعمال نہ کرنا صرف خودکشی ہی نہیں ہے بلکہ بدی و شرارت کی بالواسطہ امداد بھی ہے۔
حقیقتًا یہ کوئی نیکی ہی نہیں ہے کہ ظالموں کو عمداً ظلم کا موقع دیا جائے اور مُفسدوں کو جان بوجھ کر فساد پھیلانے کی آزادی دے دی جائے۔ (الجہاد فی الاسلام)
٭…٭…٭
صالح نظامِ حکومت
ایک صالح نظامِ حکومت کی بنیاد ایمان اور اخلاق پر قائم ہوتی ہے۔ جہاں یہ دونوں چیزیں موجود نہ ہوں وہاں آپ کاغذ پر خواہ کتنا ہی اچھا دستور اور قانون بنا لیجیے، زمین پر وہ کبھی نافذ نہیں ہوسکتا۔ (تصریحات )
٭…٭…٭
برداشت کا تصورِ دین
قرآنِ حکیم نے سب معاملات میں تحمّل و برداشت کی تعلیم دی ہے مگر ایسے کسی حملے کو برداشت کرنے کی تعلیم نہیں دی جو دینِ اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا نظام مسلّط کرنے کے لیے کیا جائے۔ اس نے سختی کے ساتھ حکم دیا ہے کہ جو کوئی تمہارے انسانی حقوق چھیننے کی کوشش کرے، تم پر ظلم و سِتم ڈھائے، تمہاری جائز ملکیتوں سے تم کو بے دخل کرے، تم سے ایمان وضمیر کی آزادی سلب کرے، تمہیں اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے سے روکے، تمھارے اجتماعی نظام کو درہم برہم کرنا چاہے اور اس وجہ سے تمھارے درپے آزار ہو کہ تم اسلام کے پیرو ہو، تو اس کے مقابلے میں ہرگِز کمزوری نہ دکھاؤ اور اپنی پوری طاقت اس کے اِس ظلم کو دفع کرنے میں صَرف کر دو۔ (الجہاد فی الاسلام)
٭…٭…٭
انقلاب کا راستہ
تحریک اسلامی کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انہیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے عام دعوت پھیلائیے۔ بڑے پیمانے پر اذہان و افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالا ت بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب پربا ہوگا وہ ایسا پائیدار ومستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کر سکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔ (تفہیمات، سوم)
٭…٭…٭
انبیا ؑ کا مشن
دنیا میں انبیا علیہم السلام کے مشن کا منتہائے مقصود یہ رہا ہے کہ حکومتِ الٰہیہ قائم کرکے اس پورے نظامِ زِندگی کو نافذ کریں جو وہ خدا کی طرف سے لائے تھے۔
وہ اہل جاہلیت کو یہ حق تو دینے کے لیے تیار تھے کہ اگر چاہیں تو اپنے جاہلی اعتقادات پر قائم رہیں اور جس حد کے اندر ان کے عمل کا اثر انہی کی ذات تک محدود رہتا ہے اس میں اپنے جاہلی طریقوں پر چلتے رہیں۔
مگر وہ انہیں یہ حق دینے کے لیے تیار نہ تھے اور فطرتاً نہ دے سکتے تھے کہ اقتدار کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں رہیں اور وہ انسانی زِندگی کے معاملات کو طاقت کے زور سے جاہلیت کے قوانین پر چلائیں۔ اسی وجہ سے تمام انبیا نے سیاسی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی۔ بعض کی مساعی صرف زمین تیار کرنے کی حد تک رہیں، جیسے سیدنا ابراہیمؑ۔ بعض نے انقلابی تحریک عملاً شروع کردی مگر حکومت الٰہیہ قائم کرنے سے پہلے ہی ان کا کام ختم ہوگیا، جیسے سیدنا مسیحؑ۔ اور بعض نے اس تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچا دیا جیسے سیدنا یوسف، موسی ؑ اور سیدنا محمدؐ۔ (تجدید و احیائے دین)