جماعت اسلامی بلوچستان کاآج سے مہنگائی کیخلاف احتجاجی مہم کا آغاز

159

کوئٹہ (نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی نے مہنگائی، بے امنی اور بے روزگاری کیخلاف آج سے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریلیف کے نام پر بننے والی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان پر آئے روز مہنگائی کے پہاڑ توڑ رہی ہے، وزیر اعظم پاکستان کے عوام سے کیے گئے وعدے آج مذاق بن چکے ہیں مگر ان پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں ہے، بلوچستان میں باپ کی نہیں بلکہ پوتے کی حکومت ہے، باپ دادا کے تجربے کے باوجود 14 ارب روپے لیپس ہونا، ان کی نااہلی کی واضح دلیل ہے، موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی ثابت کرنے کے لیے کوئی نئی دلیل کی ضرورت نہیں رہی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں جماعت اسلامی کے صوبائی دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری ہدایت الرحمن بلوچ، صوبائی سیکرٹری اطلاعات ولی خان شاکر، صوبائی نائب امیر بشیر احمد ماندائی، مولانا عبدالکبیر شاکر، ڈپٹی جنرل سیکرٹری مرتضیٰ کاکڑ، خالد الرحمن و دیگر بھی موجود تھے۔ مولانا عبدالحق ہاشمی نے کہا کہ 2018ء کے بعد تشکیل پانے والی وفاقی حکومت نے خود ہی اتنے اپنی ناکامی کے اتنے دلیل دیے کہ ان کی ناکامی ثابت کرنے کے لیے کوئی نئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی طرح صوبے میں بننے والی حکومت نے بھی کوئی ایسا نیا کام نہیں کیا کہ جس سے عوام کو یہ محسوس ہوا ہو کہ ان سے عوام کی مشکلات میں کمی آئی ہو۔ یہی صورتحال بے روزگاری اور امن وامان کی ہے، گزشتہ روز کوئٹہ میں ہونے والا خود کش حملہ انتہائی افسوسناک ہے، 140 ارب سے زائد سیکورٹی کے نام پر خرچ کرنے کے باوجود عوام کو تحفظ نہیں دے سکے جو کہ عوام کی ناکامی کی واضح دلیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور حکومت کی تقاریر اور عوام کو دکھائے جانے والے سبز باغ آج مذاق بن چکے ہیں، سوشل میڈیا پر ان کی تقاریر اور وعدوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے مگر ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے خود اعتراف کیا کہ مافیا موجود ہیں جو حکومت کے لیے رکاوٹوں کا باعث بن رہے ہیں، سچ یہ ہے کہ آٹے کے بحران اور چینی کو چھپا نے والے مافیا کے لوگ وزیراعظم کے آس پاس ہی موجود ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے پاس بھی اسی طرح کے مافیاز کے لوگ موجود ہیں جو کسی کو ان کے پاس جانے نہیں دیتے۔ بلوچستان میں باپ کے نام سے حکومت قائم ہے، اصل میں یہ باپ کی نہیں پوتے کی حکومت ہے دادا اور باپ کے بعد پوتے کی حکومت ہے، اتنے وسیع تجربے کے باوجود عوام کو ریلیف دینے میں یکسر طور پر ناکام ہے، صوبائی حکومت سے پچھلی مرتبہ 14 ارب روپے لیپس ہوئے، جس سے واضح پیغام مل رہا ہے کہ ان کے پاس کوئی اہلیت نہیں ہے، مہنگائی کا طوفان متوسط طبقے کو پیس رہا ہے مگر نچلی سطح کے لوگوں کے لیے جینا ہی محال ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف سے اربوں روپے قرضہ لینے کے باوجود عوام کی حالت تبدیل نہیں ہوئی۔ قرضہ لینے کے بعد انہیں مع سود ادا بھی کرنا ہوگا، اس سودی معیشت سے عوام مزید غلام بن رہی ہے۔ بلوچستان میں مختلف اسامیوں کے لیے ہونے والے ٹیسٹ و انٹرویوز میں کرپشن کی جارہی ہے، پیسے لے کر میرٹ کو تبدیل کیا جاتا ہے، بے روزگاری اور میرٹ کی پامالی سے نوجوان بے امنی کی طرف مائل ہورہے ہیں، گزشتہ روز ہماری ایک سابق صوبائی وزیر سے ملاقات ہوئی جنہوں نے انکشاف کیا کہ صوبائی وزیر کو 18 فیصد رائلٹی دی جاتی ہے، جو صوبے کے عوام سے ظلم کے مترادف ہے۔ صوبائی وزیر کا رائلٹی لینے کا کیا جواز ہے۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام آج صوبائی دفتر میں اجلاس ہوا جس میں تمام اضلاع سے آئے ہوئے ضلعی نمائندوں نے شرکت کی اور اپنے اپنے اضلاع میں تنظیمی کارکردگی اور حکومتی کارکردگی کے حوالے سے تفصیلات سے شرکا کو آگاہ کیا گیا، جس کے بعد معلوم ہوا کہ صرف کوئٹہ میں ہی حکومت ناکام نہیں ہے بلکہ پورے صوبے میں بری طرح ناکامی سے دوچار ہے جس پر ہم نے متفقہ پر آج سے ملک گیر احتجاج شروع کررہے ہیں جس کے لیے پلاننگ کی ہے۔ اس سلسلے میں تمام شہروں میں احتجاجی کیمپ لگائے جائیں گے، سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کرکے ان کی ہم آہنگی لی جائے گی۔ جلسے، جلوسوں، ریلیوں، کارنر میٹنگوں کا اہتمام کیا جائے گا، جس کا سلسلہ رمضان تک جاری رہے گا۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی مرکز سے بھی میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔ انہوں نے احتجاجی مہم میں سیاسی پارٹیوں، فلاحی اداروں، عوام، تاجر برادری، این جی اوز و دیگر سے اپیل کی کہ وہ ان کا ساتھ دے کر حکومت پر دبائو ڈالیں تاکہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے، امن وامان کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوجائیں۔ ایک سوال کے جواب میں عبدالحق ہاشمی کا کہنا تھا کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ مشکل وقت گزر کر آنے والے 5 سال میں عوام کو ریلیف مل جائے گا کیونکہ 6 ارب روپے قرضہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے لیا ہے، اس قرضے کو 13فیصد سود کے ساتھ ہی ادا کرنا ہوگا جب قرضہ لے کر عوام کی حالت نہیں بدلی تو وہ قرضہ بمعہ سود دینے سے حالات کی بہتری کیسے ممکن ہے ۔ ملک کی گروتھ نیچے جارہی ہے اس وقت افغانستان ، بنگلہ دیش ، سری لنکا سمیت دیگر ممالک کی گروتھ بھی پاکستان سے زیادہ ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو جماعت اسلامی اسلام آباد جانے کا اقدام اٹھاسکتی ہے مگر ابھی یہ فیصلہ نہیںہواہے۔