وفاق المدارس کی تقریب اور مدارس

1839

ایک تو طلحہ رحمانی صاحب نے وفاق المدارس العربیہ کے عظیم الشان جلسہ تقسیم اسناد انعامات اور اعزازات میں بلا کر اسٹیج پر بٹھادیا ابھی اسی بات پر شرمندگی تھی کہ جس صف میں صدر اتحاد تنظیمات مدارس اور وفاق المدارس عربیہ پاکستان جناب حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب تشریف فرما تھے ہمیں بھی اسی میں بٹھادیا۔ اس اس پر طرہ یہ کہ دونوں حضرات کی جانب سے وفاق کی تقریب میں شرکت پر اظہار تشکر کا خط مل گیا۔ اس خط نے ہمیں لکھنے اور بہت سی یادیں قارئین کے سامنے لانے پر مجبور کردیا۔ اس تقریب میں جو روحانی ماحول تھا علمائے کرام کی بہار تھی اس پر پوزیشن ہولڈر طلاب کی موجودگی۔ اگر حد ادب نہ ہو تو یہ ملک کا مستقبل ہیں جو آنے والے دنوں میں اس ملک کے جید علمائے کرام کی جگہ لیں گے۔ بات عجیب سی لگتی ہے لیکن ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ پاکستان کے طاقتور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے سامنے جامعتہ العلوم الاسلامیہ کراچی ہی کے نوجوان عدنان کاکا خیل نے جس خوبصورت اور پراعتماد انداز میں مدارس دینیہ اور اسلام کا مقدمہ پیش کیا تھا، آج وہ علمائے دین کے بڑوں میں شامل ہیں۔ اسی طرح وفاق المدارس کے منتظم اعلیٰ قاری حنیف جالندھری نے جب جنرل پرویز مشرف کی مدارس بند کرنے کی دھمکی پر بے ساختہ کہا کہ جنرل صاحب مدارس بند کرنے والے تو خود بند ہوجاتے ہیں، اور یہ جملہ تاریخ کا حصہ بن گیا اور جنرل پرویز مشرف جو کہا کرتے تھے کہ ہم تمہیں وہاں سے ماریں گے کہ تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ کہاں سے ہٹ کیا گیا۔ آج خود سوچ رہے ہیں کہ آخری آرام گاہ دبئی میں بنوائوں یا پاکستان میں 31 توپوں کی سلامی اور پاکستانی پرچم میں لپیٹا جائوں۔ مگر کیسے۔ انہیں کس نے کہاں سے ہٹ کیا ہے ابھی تک سمجھ اور سنبھل نہیں پائے ہیں۔
وفاق المدارس کی اس تقریب میں یکساں نصاب تعلیم کی بات بھی آئی اور علما نے بہت واضح اور دوٹوک بات کی کہ اگر بیکن ہائوس، سٹی اور گرامر اسکول وغیرہ کو بھی یکساں نصاب تعلیم کے ماتحت لایا جائے تو بات چیت آگے بڑھ سکتی ہے۔ بہرحال دینی مدارس عمارتوں اور قطعات زمین کا نام نہیں ہے۔ یہ مدارس استاد اور طالبعلم کے قلبی رشتے کا نام ہے اور یہ عمارتوں کا محتاج نہیں مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے دکان پر، سفر میں، مسجد میں ہر جگہ تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اتفاق سے طلحہ رحمانی صاحب نے اس مقام پر بٹھا دیا جہاں اب سے کئی برس قبل شدید بارش کی وجہ سے ہم نے پناہ لی تھی یا وقت گزارا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ جمشید روڈ پر گاڑی کا سائلنسر بنوانے پہنچے تو بارش تیزی سے ہونے لگی۔ سائلنسر والے نے فٹ پاتھ سے دکان کے اندر گاڑی لا کر سائلنسر تو بنادیا، بارش کی شدت اس قدر تھی کہ نیوٹائون مسجد کے سامنے سے جیل جانے والی سڑک تو صاف تھی لیکن اسلامیہ کالج سے آنے والا پانی اس قدر زیادہ اور بہائو اس قدر تیز تھا کہ لوگ گر رہے تھے۔ ایسے میں یہی بات سمجھ میں آئی رات کہیں گزاری جائے۔ چناں چہ جامعہ اسلامیہ بنوری ٹائون کے دروازے کے ساتھ ہی گاڑی کھڑی کی۔ ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوئے کہیں گارڈ روک نہ لے۔ رات کا ایک بج رہا تھا لیکن اس نے کوئی استاد کوئی طالبعلم سمجھ کر جانے دیا۔ یہ سیکورٹی والوں کے سوچنے کی بھی بات ہے۔ بہرحال وضو کیا نماز ادا کی اور سوچا اب تو صبح ہی گھر جائوں گا۔ گھر والوں سے حال پوچھا تو پتا چلا کہ گھر میں بھی چاروں طرف سے پانی آرہا ہے، بجلی بھی نہیں ہے، مسجد زیادہ بہتر جگہ ہے، ہم وہیں رک گئے۔ دروازے کے قریب بیٹھ کر بروسٹ کھایا اور مسجد میں آگئے۔ عین اسی جگہ آج بیٹھے تھے۔ یہاں طلبہ کو جنریٹر پر
بجلی فراہم کرکے اگلے دن ہونے والے امتحان کی تیاری کا موقع دیا گیا تھا۔ پہلے تو ہم نے سونے کی کوشش کی لیکن کسی استاد نے پیار سے ایک ٹھڈا لگایا اور آواز دی۔ یہ سونے کی جگہ نہیں۔ جگہ بدل کر سونے کی کوشش کی۔ لیکن یہاں زیادہ سخت آدمی کی ڈیوٹی تھی۔ انہوں نے ٹھڈا کم اور ڈانٹ زیادہ زور کی لگائی۔ خود ہی ہم شرمندہ ہو کر اگلی صف میں ہونے والی مجلس میں جا بیٹھے۔ جناب یہ لوگ شفاعت پر بحث کررہے تھے آیت الکرسی زیر غور تھی۔ شفاعت کیا ہوتی ہے، کون کر سکتا ہے، کس کو حق ملے گا، کیا ملے گا، اس باریک نکتے کے ہر پہلو پر بات ہورہی تھی۔ یہ علما تیار ہورہے تھے جنہیں اس وقت کے جنرل پرویز مشرف دہشت گرد کہتے تھے۔ تھوڑی دیر یہاں بیٹھے پھر دوسری مجلس میں جا بیٹھے۔ وہاں منطق زیر بحث تھی، سر سے گزرنے لگی تو اُٹھ کر وضو کیا، نوافل پڑھے لیکن آج وہ ساری رات ایک بار پھر نظروں میں گھوم گئی۔ ہم نے دفتر جا کر لکھا ’’دہشت گردوں کے درمیان ایک رات‘‘ اس روز یہاں بیٹھ کر ہم سوچ رہے تھے کہ انجینئر چار سال میں بنتا ہے، ڈاکٹر پانچ سال میں بنتا ہے لیکن عالم دین 8 سال کی ریاضت کے بعد تیار ہوتا ہے۔ پھر فتویٰ دینے کے قابل بنانے کے لیے اسے مزید 2 سال لگتے ہیں۔ ہم نے آج تک کسی مفتی کا یہ فتویٰ نہیں دیکھا کہ پی آئی اے کو ایسے چلانا چاہیے یا ریلویز کا خسارہ اس طرح ختم کیا جاسکتا ہے۔ ملک کو میرے فتوے کے مطابق چلایا جائے، بلڈنگز میرے فتوے کے مطابق بنائی جائیں، سڑک میرے فتوے کی روشنی میں بنائی جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ فتویٰ آتا ہے کہ اپنے نمائندوں کے انتخاب کے وقت ووٹ دینے کا فریضہ ضرور ادا کریں، اہل اور ایماندار شخص کو ووٹ دیں۔ شاید علما کی یہ بات انہیں تکلیف دیتی ہو کہ اہل اور ایماندار لوگوں کو ووٹ دو۔ لیکن اس ملک کا ڈاکٹر، انجینئر، یونیورسٹی گریجویٹ، فوجی ڈکٹیٹر اور میٹرک پاس ٹی وی اینکر اسلام کے بارے میں
فتوے جاری بلکہ مسلط کررہا ہوتا ہے۔ ان علما کی قدر تو کیا کریں گے یہ جاہل لوگ علما کے خلاف مہم چلارہے ہوتے ہیں۔ کبھی مولانا فضل الرحمن کے نام پر، کبھی کسی ڈاڑھی والے کی غلطی کے نام پر شور شرابا ہوتا ہے۔
جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون سے ہمارا رشتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے استادوں کے استاد مولانا ضیا الحق اور ان کے والد قاری عبدالحق دونوں کا اس جامعہ سے رشتہ ہے تو ہمارا بھی رشتہ ہے۔ جس وقت تقسیم اسناد کی تقریب ہورہی تھی تو ہمارے سامنے ایسے ایسے طلبہ آرہے تھے جنہوں نے دور دراز مقامات پر قائم مدارس میں تعلیم حاصل کی اور اچھے نمبر لیے۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ اس طرح کی تقریبات ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ہوتی ہیں۔ وفاق المدارس کے نظام کے حوالے سے یہ دلچسپ بات بار بار دہرائے جانے کے قابل ہے کہ اس کے امتحانات کے لیے آج تک پولیس طلب کرنے، دفعہ 144 لگانے اور سیکورٹی کی ضرورت نہیں پڑی۔ کبھی کسی نے نقل کا سوچا تک نہیں۔ جو پرچہ کراچی کا طالبعلم دے رہا ہے وہی پرچہ گلگت کا طالبعلم دے رہا ہے، جو سندھ کے دور دراز مدرسے کا طالبعلم دے رہا ہے، وہی پنجاب والا بھی۔ آخر اس نظام میں کیا ہے کہ کبھی پریشانی نہیں ہوئی۔ صرف ایک وفاق سے ہزارہا حفاظ اور علمائے کرام پاکستان کو ملتے ہیں اگر دینی مدارس نہ ہوں تو ریاست کی یہ ذمے داری کون پوری کرے گا۔ یہ ریاست تو تعلیم کا نظام چلانے سے بھی قاصر ہے، اسکولوں کو اصطبل اور اوطاق بنالیتے ہیں، فنڈز کھا جاتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ دینی مدارس کو رجسٹریشن اور یکساں نصاب کے نام پر دبائو میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قاری حنیف جالندھری نے بجا کہا کہ اگر بیکن ہائوس، سٹی اور گرامر اسکول اور آغا خان کو بھی یکساں نصاب میں شامل کیا جائے تو مدارس دینیہ بھی اس پر غور کرسکتے ہیں۔ آج بھی مدارس کو دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے، جو صاحبان دینی مدارس کو دھمکاتے ہیں ان سے گزارش ہے دبئی میں مقیم مکا لہرانے والے سے رابطہ کرلیں۔ ان شاء اللہ افاقہ ہوگا۔