حقوق نسواں: اسلام بمقابلہ مغرب

867

حقوق نسواں وہ واحد مسئلہ ہے جس کی مغرب کو بڑی فکر لاحق رہتی ہے۔ دنیا کا طریقہ یہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی قوم برادری یا کوئی طبقہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں تو پہلے پہل وہ اس پر احتجاج کے ساتھ اپنے کچھ ہم نوا تیار کرتا ہے تاکہ اس کی تحریک کے لیے کچھ حمایت حاصل کی جا سکے پھر اپنے احتجاج کے دائرے کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے مگر 14 سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم معاشرے میں عورتوں نے کبھی اپنے ’’حقوق‘‘ کے لیے نہ کوئی تحریک چلائی نہ ان کی طرف سے مردوں نے کوئی احتجاج کیا۔ ہاں اگر انفرادی طور پر کسی کے حق پر ڈاکا ڈالا جائے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے تاکہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق اپنا حق واپس لیا جا سکے۔ لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے کہ مسلم معاشرے کو جہاں ہر چہار دانگ عالم میں مسلسل کچلنے کی صدیوں سے کوششیں ہو رہی ہیں اس کے بیچ صرف حقوق نسواں ہی ایسا مسئلہ ہے جس کو جداگانہ طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ صلیبی جنگوں سے لیکر مسلم دنیا میں انگریزوں کی یلغار کسی اور مقصد کے لیے نہیں تھی ماسوائے اسلام کے معاشرتی نظام کو تہس نہس کرنے کے۔ بر سبیل تذکرہ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ برصغیر میں انگریز کس مقصد کے لیے آیا تھا کیا مغلوں نے عوام کے حقوق صلب کر رکھے تھے اس کے برخلاف مغلوں نے برصغیر میں بلا امتیاز رنگ و نسل مذہب سے تعلق رکھنے والے عوام کو ایک آنکھ ہی سے دیکھا تھا وگرنہ 700 سال حکومت کرتے ہوئے وہ مسلمانوں کے سوا ہر مذہب اور نسل کے افراد کی سرکوبی کر سکتے تھے مگر ایسی کوئی مثال قرطاس تاریخ پر وارد نہیں ہوئی۔ لیکن تاریخ اتنا ضرور بتاتی ہے کہ اس خطے میں اولیا اللہ بزرگان دین علمائِ کرام اور عرب سے آئے ہوئے مہذب خاندانوں نے اسلام کی اپنے اپنے طور پر خدمات سر انجام دیں اور یہ بات قریں قیاس معلوم ہوگی کہ عرب کے بعد سب سے موثر اور تیزی کے ساتھ دنیا کے جس حصے میں اسلام کے پودے کی آبیاری ہوئی وہ یہی ہند کا علاقہ تھا جہاں دور نبوی ہی سے اسلام کی کرنیں پہنچنا شروع ہو گئیں تھیں اس لیے اگر برصغیر میں اسلام کی ترویج اور اشاعت کی تاریخ کو دور نبوی سے منسلک کیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ یہ شریعت اسلامی اور ہر ہر طبقے کے حقوق کی پاسداری اور انصاف پر مبنی حکمرانوں کے قوانین مسلمانوں کے کردار اور لین دین میں اسلامی اصولوں اور اخلاقیات کا ہی اعجاز ہے کہ اس خطے کے ہر ہر مذہب کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے گئے اور یہ سلسلہ اب تک رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا خاص طور پر ہندو مذہب میں ذات پات کی اونچ نیچ سے ہندو بہت بیزار ہو چکے تھے اور ہو رہے ہیں جب وہ اسلام کا مساوات پر مبنی نظام دیکھتے تو ان کے دلوں میں بھی یہی خواہش مچلنے لگتی کہ اگر وہ بھی مسلمان ہو جائیں تو معاشرے میں ان کو بھی برابری کے حقوق مل جائیں گے پھر وہ کوئی قباحت محسوس کیے بغیر اسلام قبول کر لیتے یوں اسلام برصغیر میں بہت تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا اگر ہندوستان پاکستان بنگلا دیش سری لنکا افغانستان اور دیگر ملحقہ علاقوں کی مسلم آبادی کو جمع کر لیا جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس علاقے کی آدھی سے زیادہ آبادی جو ظہور اسلام کے وقت مسلمان نہیں تھی اب تک مسلمان ہو چکی ہے۔
انہی حالات کو دیکھتے ہوئے صلیبی جنگوں سے فراغت پا کر انگریز نے ہندوستان کا رخ کرنے کی منصوبہ بندی کرنی شروع کی، اگرچہ کہ اس بات کو ایک مفروضے کے طور پر لیا جا سکتا ہے مگر انگریز کے برصغیر میں آتے ہی جو اقدامات سامنے آئے اور اسلام اور مسلم دشمنی کے ساتھ علمائِ کرام کے ساتھ شدید بغض و عناد بلکہ یہ مکمل عداوت کا نقشہ پیش کر رہے تھے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں خال خال ہی کسی اور مذہب اور اس کے اکابرین کے ساتھ انگریز کا وہ رویہ نہ رہا تھا جو مسلمان علما کے ساتھ تھا اس امر کو مزید تقویت انگریز کے خلاف برسرپیکار علماء اور اسلام سے محبت رکھنے والے علاقائی حکمرانوں کے ساتھ جنگوں سے ملتی ہے وہ پانی پت کا میدان ہو، شاہ ولی اللہ اور شاہ اسمٰعیل شہید کی انگریز کے خلاف جنگ ہو یا جڑیانوالا باغ کا واقعہ، سب اس بات کا تاریخی ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ چونکہ انگریز نے مسلمانوں اور خاص طور پر علمائِ کرام کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہوا تھا اور ان علماء کو جو انگریز کی ہاں میں ہاں نہیں ملا رہے تھے ان کو توپوں کے دہانوں سے باندھ باندھ کر اڑایا جا رہا تھا یہ اس وقت کی بدترین سفاکیت اور آج کی زبان میں بدترین دہشت گردی تھی ویسے تو کفار کی دہشت گردی کی اپنی الگ تاریخ ہے جس نے تاریخ ہی کو سیاہ کردیا ہے۔ اس لیے اس کے رد عمل کے طور پر مسلمانوں نے بھی مسلح جدو جہد شروع کی۔ فتح علی المعروف ٹیپو سلطان کے نام سے آج تک انگریز الرجی ہے یعنی دو سو سال کا بغض ابھی تک گوروں کے دلوں میں تیر کی طرح پیوست ہے جو پھانس بن کر چبھتا رہتا ہے۔ اب اس بغض و عناد کی اخیر دیکھیں کہ کہاں ہوئی جب لارڈ مائونٹ بیٹن کو معلوم ہوا کہ قائد اعظم کا انتقال ٹی بی کی بیماری سے پاکستان بننے کے محض 13 ماہ بعد ہو گیا تو اس نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مسٹر جناح صرف 13 ماہ کا مہمان ہے تو میں پاکستان کبھی بننے نہیں دیتا یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ انگریز یہاں سے جانا چاہتا ہی تھا مگر پورے بھارت کو ہندووں کے سپرد کر کے جانا چاہتا تھا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
بات طویل ہوتی جا رہی ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حقوق نسواں کا بخار انگریز اور اس کے حواریوں کو صرف مسلم معاشرے ہی میں کیوں چڑھتا ہے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے معاشروں میں بھی خواتین عدم تحفظ، عدم مساوات اور عدم عزت و استحکام کا شکار چلی آ رہی ہیں ہم خود مغرب اور امریکا کے معاشرے کے دسیوں ثبوت دے سکتے ہیں کہ وہاں عورت کے ساتھ کس طرح کا سلوک ہو رہا ہے۔ خود بھارت میں جو انگریز کی ڈارلنگ ڈھائی سو سال سے بنا ہوا ہے میں عورت کس بدترین معاشرتی سلوک کا شکار چلی آ رہی ہے۔ کیا انگریز نے اپنے دو سو سالہ دور میں ستی کی رسم ختم کرنے کی کوئی کوشش کی۔ کوئی حکم جاری کیا کیا، بیوہ کو دوسری شادی کا حق دلوایا، کیا دلتوں اور دیگر نچلی ذاتوں کو ان کے حقوق دلائے جس معاشرے میں عدم مساوات کا رواج ہو اس معاشرے کی عورت ہی اس عدم مساوات کا سب سے بڑا شکار ہوا کرتی ہے مگر انگریز کے پیٹ میں کبھی مروڑ نہیں اٹھا کہ ان بے کس ہندو عورتوں کی داد رسی کرے۔ خود عیسائی مذہبی عقائد کو سامنے رکھ کر دیکھ لے کہ عورتوں کو کتنے حقوق حاصل ہیں۔ امریکا اور یورپ میں عورت اپنے بڑھاپے سے کس قدر خوفزدہ ہے اس کا تصور بھی محال ہے۔ جب بچے اٹھارہ سال کے ہوجاتے ہیں تو ماں باپ ان کی ذمے داری اٹھانے سے اپنے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں پھر وہ لڑکی ہو کہ لڑکا خود ہی اپنی تعلیم اور معاش کے چکروں میں پھنس جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر ان کے باپ موت کے منہ میں چلا جائے تو ماں دوسرے کسی مرد کے ساتھ شادی کرے نہ کرے رہنا شروع کر دیتے ہے اور اس کی نوجوان اولاد در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور رہتی ہے یہ ہیں عورتوں اور بچوں کے حقوق جو مغرب کا معاشرے اپنے ہی بچوں اور عورتوں کو دے رہا ہے۔
امریکا میں ایک ڈراما بہت مشہور ہوا تھا جب ایک عورت جس کا خاوند پہلے ہی مر چکا تھا جب بہت بوڑھی ہوگئی تو سارے بیٹے بیٹیاں مل بیٹھتے ہیں کہ اس بوڑھی ماں کو کون اپنے ساتھ رکھے گا یا سب مل کر اس کا کوئی بندوبست کریں اسی بحث میں بڑا لڑگا بول اٹھتا ہے اس عورت کو کہیں بھی جا کر داخل کروا دو کیونکہ جب ہم چھوٹے تھے تو باپ کے مرنے کے بعد یہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بھاگ گئی تھی ۔
مظفر ربانی
حالانکہ اس وقت ہم کو اس کی شدید ضرورت تھی مگر اس کی ممتا نے اس کی عیاشیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور ہم سب کو اکیلا چھوڑ کر چلتی بنی اب جب کہ اس کو ہماری ضرورت ہے تو اس کو اس کا ماضی یا د دلانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی اس کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ یہ ہے وہ کشمکش جو پورے امریکا اور یورپ میں پھیلی ہوئی ہے مگر کفار کو ہماری خواتین کے حقوق کی بڑی فکر لگی ہوئی ہے حالانکہ ہماری خواتین نے تو کبھی انگریز کو خط نہیں لکھا کہ آئو اور ہم کو ہمارے حقوق ظالم مردوں سے دلوائوں انگریز خود ہی ہمارے معاشرے سے لادین ذہنیت کے مصنفین، شاعر، دانشور سیاستدان، صحافی، تجزیہ نگار، بیوروکریٹس، اعلیٰ حکام اور ہر سطح سے اپنے مطلب کے افراد کو اکھٹا کر کے بیانات اخبارات میڈیا ڈراموں کے ذریعے سے خواتین کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی ناپاک سازشوں میں لگا ہوا ہے جس میں مخلوط تعلیم سیکولر نصاب تعلیم ذہنی پراگندہ مواد سے بھرے ہوئے ڈرامے۔
دور حاضر کی بھارتی سیاست پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان اقدامات کے پیچھے بھی کسی نہ کسی بین الاقوامی قوت کا ہاتھ ہے اور یہ کہنا کہ شہریت کا قانون اقلیتوں کے خلاف ہے، مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کیا کشمیر کی قانونی امتیازی حیثیت جس کو بھارتی آئین کی شقیں 370 اور 35a تحفظ فراہم کرتی تھیں کو ختم کرکے بھارت کی تمام اقلیتوں کے خلاف اقدام تھا یا کہ خالصتاً کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف بعینہ بھارت کا متنازع قانون برائے شہریت صرف اور صرف مسلمانوں ہی کے خلاف ہے کیونکہ اب تک اس قانون کے بعد سے جو ظلم و ستم مسلمانوں پر روا رکھا جا رہا ہے کسی اور اقلیت کے ساتھ نہیں روا رکھا گیا وہ تعلیمی ادارے ہوں یا ذاتی مکان سب میں بی جے پی کے کارندے گھس کر صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ اگر پاکستان سے اتنی محبت ہے تو جائو پاکستان میں ہمارا کھاتے ہو اور پاکستان کا گاتے ہو مگر کسی کونے سے یہ خبر نہیں آئی کہ کسی عیسائی یا دلت کو کسی ہندو نے یہ بات نہیں کی کہ جائو برطانیہ اور جائو کسی اور ملک میں۔
یہاں یہ امر بھی بحث طلب ہے کہ حقوق نسواں کی تعریف کیا ہے ظاہر ہے ایک کافر کے نزدیک حقوق نسواں کی وہ تعریف تو نہیں ہو سکتی جو اسلام اور شریعت اسلامی میں اور خاص طور پر قران کریم میں بڑی صراحت اور تفصیل سے بیان کی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انگریز مسلم معاشرے پر حقوق نسواں کی وہ تعریف مسلط کرنا چاہتا جو کفار کی تراشیدہ ہے اور اسلام میں دیے گئے حقوق سے یکسر صرف نظر کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف مکمل محاذ کھولا ہوا ہے کہ کسی طرح عام مسلمان خاص طور پر عورت اسلام میں دیے گئے اس کے حقوق سے بہرہ مند نہ ہونے پائے نہ صرف حقوق بلکہ حقوق کے تحفظ کا بھی ایک مکمل نظام اسلام دیتا ہے مگر چونکہ انگریز جاتے جاتے ایسے لوگوں کو پاکستان پر مسلط کرگیا ہے کہ وہ انگریز کی خوشنودی کے لیے اسی کی تعلیمی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اسلام کا مضبوط و مربوط خاندانی نظام ہی دراصل عورت کے حقوق کا ضامن ہے۔ جب کسی کے یہاں لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ والد اپنا اولین فرض اس بچی کی مکمل دیکھ بھال صحت اور پھر بڑے ہونے پر اس کی تعلیم و تربیت اور باعزت طریقے سے اس کی شادی کر کے گھر سے رخصتی تک اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے یا یوں سمجھیں کہ جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو باپ اس پر سایہ فگن رہتا ہے جب وہ جوان ہوتی ہے تو بھائی اس کا مان ہوتا ہے اور شادی کے بعد اس کا شوہر اس کا رکھوالا ہوتا اور جب وہ بیٹے کی ماں بنتی ہے تو مرتے دم تک بیٹے ماں کی خدمت کر کے جنت کمانے کی جستجو میں لگ جاتے ہیں چیلنج کیا جا سکتا ہے کہ مغرب تو کجا روئے زمین پر موجود ہزاروں ادیان میں سے کسی میں بھی ایک عورت کی اس طرح کی حفاظت کی جھلک تک نہیں پائی جاتی۔ پھر انگریز کو کیا پڑی ہے کہ اربوں ڈالر صرف اسی مد میں خرچ کرتا پھرے کہ کسی طرح وہ مسلمان خواتین کو اپنے نظام سے بغاوت پر مجبور کردے یہاں تک شہزادیاں یہ دیکھنے آجائیں کہ پاکستان میں خواتین کو کیا کیا ’’حقوق‘‘ حاصل ہیں ظاہر ہے وہ مغربی فلسفے کے پیش نظر جن کو وہ حقوق کہتے ہیں اسی زاویے اور کسوٹی پر پرکھنے آتے ہیں کہ مغرب کے بیانیے کے مطابق کتنے حقوق خواتین کو حاصل ہیں۔ اسلام میں خواتین کو جو حقوق دیے گئے ہیں وہ کسی بھی معاشرے سے سب سے زیادہ ہیں ایک عورت اپنا کاروبار فیکٹری کارخانہ تک چلا سکتی ہے تعلیم کے شعبے میں درس و تدریس کے لیے آزاد ہے اپنے من پسند شخص سے شادی کر سکتی ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو وہ کسی بھی وجہ سے شوہر سے خلع لینے میں مکمل آزاد ہے۔ سائنس، آرٹس، انجینئرنگ، فائنانس الغرض ہر شعبے میں تعلیم حاصل کرنے میں مکمل آزاد ہے۔ حقوق کے حوالے سے انسان مرد و خواتین کے حقوق جوانی کے دائرے تک محدود ہوتے ہیں چاہے وہ کسی بھی معاشرے کے فرد ہوں بچپن اور بڑھاپے کی زندگی تو دوسروں کے مرہون منت ہوتے ہیں اب چالیس پینتالیس سال کی جوان زندگی کی بہاروں کو سہانا بنانے کے لیے کتنے حقوق درکا ہو سکتے ہیں اسلام نے وہ تمام حقوق فراہم کر دیے ہیں جو انسان سوچ سکتا ہے بلکہ اس کی سوچ سے زیادہ حقوق اس کو دے دیے گئے ہیں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ’’جھگڑا‘‘ کیا ہے۔ یہی وہ سوال ہے جو اسلام اور مغرب کے بیچ وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔
اسلام جو حقوق خواتین کو دیتا ہے وہ مختصراً بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اگر مزید تسلی و تشفی کسی کو درکار ہے تو وہ قران و حدیث اور تفاسیر کا مطالعہ کر سکتا ہے ہاں مغرب کے نزدیک عورت کو کیا حقوق حاصل ہیں وہ اگرچہ کہ تحریر تو ہوںگے مگر ابھی تو وہ خود اس کو حتمی کہنے سے قاصر ہیں اور گم گشتہ راہوں میں بھٹک رہے ہیں اور آئے روز حقوق نسواں کے حوالے سے نت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں اور ان کے فلاسفر دانشور اور اہل حل و عقد اس گتھی کو تاحال سلجھانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ مغرب میں عورت و مرد کی شادی کو ایگریمنٹ کہتے ہیں جب ایگریمنٹ پر دونوں دستخط کر دیتے ہیں تو متعلقہ عدالت کا مجاذ جج اس پر مہر تصدیق ثبت کرکے ایک نیا انسانی جوڑا تشکیل دے دیتا ہے جس کا کلیدی نکتہ مرد کے ذمے عورت کا نان نفقہ مینٹننس کا ہوتا ہے ظاہر ہے گھر اور تحفظ بھی اسی کی ذمے داری ہونی چاہیے لیکن مرد اس عورت سے کسی قسم کی باز پرس کرنے کا مجاذ نہیں ہوتا وہ کب گھر آتی ہے نہیں آتی اکیلے آتی ہے کہ کسی کو ساتھ لیکر آتی ہے پیسہ کہاں سے کماتی ہے شوہر کو اپنی کمائی کا حصہ بناتی ہے نہیں بناتی اور اسی طرح کے یہ اور ایسے ہی چند اور مافوق العقل ’’حقوق‘‘ کی وادی میں یہ جوڑا زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ایسے ہی لایعنی حقوق کے پیش نظر جب مرد عورت کی ایسی بے باکی خود سری کو دیکھتا رہتا ہے اور جب اس کو محسوس ہوتا ہے اس سب کے باوجود اب اس کے سوا اس عورت کو کہیں اور پناہ نہیں مل سکے گی تو فوراً اس کو طلاق دے دیتا ہے تاکہ عدالتی حکم کے مطابق اس عورت پر اٹھنے والے اخراجات سے چھٹکارا حاصل کر سکے اب عورت کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے پھر وہ ایک کٹی پتنگ کی طرح معاشرے میں اسی سابقہ شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور رہتی ہے۔ ایسے مناظر کا امریکا میں بچشم خود نظارہ کر چکا ہے۔
مغرب نے عورت کی آزادی کے نام پر خود اپنی عورت کے حقوق غصب کر رکھے ہیں حالانکہ ایک ذی روح ہونے کے ناتے ایک عورت کے انسانی حقوق میں یہ سر فہرست ہونے چاہئیں کہ اس کو ایک شوہر ایک گھر کا تحفظ دیا جائے تاکہ وہ سکون قلب کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کے ساتھ اپنے بچوں کی پرورش و نگہداشت پوری تندہی، ذمے داری اور خلوص کے ساتھ کر سکے اور جب وہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھے تو وہی اولاد اس کی خدمت کو اپنے لیے سب سے بڑی سعادت خوشی سمجھے کہ کس طرح ان کی ماں نے ان کی تعلیم و تربیت کرکے ان کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا کہ آج معاشرے میں اگر ان کی کوئی حیثیت ہے تو وہ اسی ماں کی تعلیم و تربیت اور اس دوران اٹھانے والی تکالیف کی ہی مرہون منت ہے۔ لیکن مغرب کے دانشوروں سرمایہ داروں اور حکمرانوں نے عورت کو ایک معاشرتی کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے اور چاہتا ہے کہ دنیا بھر کی عورت بھی اسی ڈگر پر چلے جس ڈگر پر اس نے اپنی عورت کو چلا رکھا ہے اب روئے زمین پر نہ کوئی ایسا مذہب موجود ہے اور نہ ہی کوئی معاشرہ جو مغرب کے اس تراشیدہ حقوق نسواں کے بت کو چیلنج کر سکے ماسوائے اسلام کے اور یہ بات وہ خود بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کے حقوق نسواں کے بیانیے کو اگر کسی سے شدید خطرات موجود ہیں تو وہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے جہاں گود سے لیکر لحد تک عورت کو کسی نہ کسی حوالے سے مرد کا حصار موجود ہوتا ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ عورت پر بری نظر ڈال سکے۔ اتنے عظیم تحفظ اور حقوق کا کیا مغرب تصور کر سکتا ہے ابھی تک مغرب جس ناکامی سے دوچار ہے وہ اسلام کے مقابلے میں کوئی ایسا نظام پیش کر سکے کہ دیگر اقوام اور خود مغرب کی عورت بھی اس کو بخوشی قبول کر لے۔ دراصل مغرب کے دانشوروں، حکمرانوں اور سرمایہ داروں کا یہ اعتراف ناکامی ہی کہ انہوں نے پوری اسلامی دنیا میں حقوق نسواں کے خلاف ایک جال تان رکھا ہے کہ اگر وہ اسلام کے مد مقابل کوئی نظام نہیں دے سکتا تو مسلم معاشرے کو ہی اپنے خود ساختہ پراگندہ نظام سے شکست دے سکے۔ اگرچہ کہ عام مسلمان مرد و خواتین دین کی تعلیم سے مکمل ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث اس جال میں آ ضرور جاتے ہیں مگر ایک حد تک وہ اس کو اپناتے ہیں مگر پھر جلد ہی محسوس کر لیتے ہیں کہ مغرب کا دیا ہوا نظام ان کے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کر دے گا۔
اسلام ایک دین فطرت ہے جسے ایک عالم سے لیکر ایک عام مسلمان تک سب سمجھتے اور جانتے ہیں اسلام کے دین فطرت ہونے کا یہی ثبوت کافی ہے کہ مسلمانوں میں مذہب کی تبدیلی کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ جو غیر مسلم قرآن کا مطالعہ کر لیتا ہے اور پھر اسلام کا لٹریچر پڑھ لیتا ہے تو یہ بات کہنے میں ذرا نہیں ہچکچاتا کہ اس کو جو کچھ اسلام کے بارے میں منفی انداز میں بچپن سے بتایا جاتا رہا ہے وہ سب جھوٹ تھا اسلام تو کچھ اور ہی ہے جہاں ہر ایک کو اس کے حقوق کی ضمانت دی جارہی ہے ایک ربّ کی عبادت کی جاتی ہے اور دنیا میں انسان جو کچھ کرتا ہے۔ روز محشر اس کی جوابدہی بھی ہونی ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ جو کچھ دنیاوی قوانین کے مطابق کر رہا ہے اس کی کسی نہ کسی سطح پر باز پرس نہیں ہونی ایک طالب علم کو معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ پڑھ رہا ہے اس کا امتحان بھی دینا تاکہ اس کی تعلیم کو سند حاصل ہو سکے وہ ڈاکٹر یا انجینئر کہلائے جانے کا مستحق ہو سکے صرف کتابیں پڑھ لینے سے وہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ ڈاکٹر یا انجینئر ہے دفتر میں اعلیٰ و ادنیٰ درجے پر کام کرنے والے ملازم کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اس کا کہیں نہ کہیں رکارڈ رکھا جا رہا ہے اور اگلے گریڈ میں ترقی اس کی کار کردگی اور جانچ پر ہی منحصر ہوگی اس لیے محشر کا برپا ہونا بھی عین فطرت کے مطابق ہے کہ جو کچھ انسان دنیا میں کر رہا ہے اس میں پاس ہونے کے لیے اس کو کہیں نہ کہیں جوابدہی کرنی ہے جس کے لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے محشر کا امتحان رکھا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو دین مکمل طور پر دین فطرت ہے اس کا مقابلہ انسانی عقل سے تراشیدہ نظام کیسے کر سکتا ہے۔ اگر انسان کی عقل اتنی طاقتور ہوتی کہ وہ خود سے کوئی ایسا نظام تشکیل دے سکے جو ہر دور ہر طبقے اور زمین کے ہر حصے کے لیے قابل قبول ہو اور انسانی ضروریات کا کما حقہ دفاع کرسکے تو انبیاؑ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ انسان کو دین فطرت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاؑ کو مبعوث فرمایا تاکہ انسان ایک ربّ کی عبادت پر متفق ہو جائے اور اپنی دنیاوی زندگی کو اسی پیرائے میں ڈھال لے جس کا اللہ تعالیٰ انسان سے تقاضا کرتا ہے۔