ادھورے مشن کی تکمیل

368

گزشتہ روز حیات محمد خان شیر پائو کی 45ویں برسی اس عقیدت اور احترام کے سا تھ منائی گئی کہ قومی وطن پارٹی کے پلیٹ فارم سے نہ صرف ان کے ادھو رے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا ئے گا بلکہ خیبر پختون خوا میں جرأت و بہادری پر مبنی عوامی سیاست اور خدمت خلق کا جو نیا سیاسی کلچر انہوں نے متعارت کرایا تھا اسے مزید وسعت بھی دی جائے گی۔ اس عزم کا اظہار حیات شیر پائو شہید کی برسی کے سلسلے میں شیر پائو چارسدہ میں منعقدہ قومی وطن پارٹی کے ایک جلسہ عام میں کیا گیا جس سے پارٹی کے دیگر راہنمائوں کے علاوہ حیات شیر پائو کے سیاسی جانشین اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پائو، صوبائی صدر سکندر حیات خان شیر پائو اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے راہنما سینیٹر میر حاصل بزنجو نے خطاب کیا۔ اس بات کو حیات شیر پائو کے سیاسی مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے صوبے میں عوامی سیاست کا جو پودا 1970 کی دہائی میں لگایا تھا وہ اب اتنا تناور درخت بن چکا ہے کہ خیبر پختون خوا میں سیاست کرنے والا ہر سیاسی کارکن اس تناور درخت کے سائے تلے بیٹھنے پر مجبور ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی و جمہوری کلچر گو کہ ماضی کی نسبت پختگی کے کچھ نہ کچھ مدارج طے کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہم چونکہ اب تک انگریز کی ذہنی اور فکری غلامی سے آزادی حاصل نہیں کرسکے اس لیے اس ذہنی غلامی کے اثرات زندگی کے تمام شعبوں سمیت سیاست کے شعبے میں کچھ زیادہ گہرے نظر آتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں سیاست چونکہ جاگیرداروں کے زیر اثر ہے اور اب چونکہ جاگیرداروں کے ساتھ ساتھ اقتدار کی تکون میں اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ دار بھی بطور پاور بروکرز شریک ہو چکے ہیں اس لیے ہماری طرز سیاست میں بتدریج تبدیلی آرہی ہے۔ دراصل حیات شیر پائو خیبر پختون خوا کی سیاست میں اسی تبدیلی کے سرخیل بن کر سامنے آئے تھے۔
ماضی میں خیبر پختون خوا کی سیاست کانگر یس اور مسلم لیگ کے زیر اثر رہی جن کے بطن سے بالترتیب پہلے نیپ اور بعد ازاں اے این پی جیسی قوم پرست اور جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی کی صورت میں مذہبی سیاسی جماعتوں نے جنم لیا البتہ 70کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا سورج نصف النہار پر تھا تو اس دور میں خیبر پختون خوا میں بطور ایک تیسری قوت پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت میں بنیادی کردار حیات شیر پائو نے ادا کیا تھا۔ یہ حیات شیر پائو کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت اور ان کی ہر دلعزیزی کا نتیجہ تھا کہ 1970ء کے عام انتخابات میں حیات شیر پائو سیاست میں نو آموز ہونے کے باوجود جہاں خیبر پختون خوا کی سیاست میں مردآہن سمجھے جانے والے خان عبدالقیوم خان کو ان کے آبائی حلقے سے شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تھے وہاں انہیں صوبے کا پہلا کم عمر ترین گورنر، وفاقی وزیر اور سینئر صوبائی وزیر بننے کا خصوصی مقام بھی حاصل ہوا تھا۔ عوامی خدمت کی تڑپ اور اس پسماندہ صوبے کی فلاح و ترقی کے ساتھ ان کی دلچسپی اور کمٹمنٹ کا اندازہ ان کا گورنر ہائوس کے دروازے عام لو گوں کے ساتھ ساتھ پارٹی ورکرز کے لیے بلا روک ٹھوک کھولنا تھا۔ یاد رہے کہ حیات شیر پائو کی یہی غیر روایتی سیاست اور عوامی مقبولیت ان کی بے وقت موت کا سبب بنی تھی۔
حیات شیر پائو کی شہادت کے بعد ان کے سیاسی جانشین اور چھوٹے بھائی آفتاب احمد خان شیر پائو تھے جنہوں نے نہ صرف تمام تر نامساعد حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ جب تک وہ پیپلز پارٹی میں رہے اس وقت تک پیپلز پارٹی کا شمار صوبے کی سرکردہ جماعتوں میں بھی ہوتا رہا۔ حیات شیر پائو کی طرح آفتاب شیر پائو کو بھی وزیر اعلیٰ سمیت مختلف محکموں میں بطور وفاقی وزیر کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ ان کی اسی عوامی مقبولیت کا اثر تھا کہ جب سے یہ پیپلز پارٹی سے علٰیحدہ ہوئے ہیں تب سے پیپلز پارٹی کو خیبر پختون خوا میں دوبارہ اقتدار دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ آفتاب شیر پائو کے پاس موجود مضبوط ووٹ بینک کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے ملک کی کسی بھی بڑی پارٹی میں بڑی شرائط کے ساتھ شامل ہونا کوئی مشکل امر نہیں تھا لیکن انہوں نے اے این پی اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی جیسی پرانی اور بڑی پختون قوم پرست جما عتوں کی موجودگی میں قومی وطن پارٹی کے نام سے ایک الگ پختون قوم پرست جماعت کی بنیاد رکھ کر جہاں ان قوم پرست جماعتوں کو چیلنج کیا ہے وہاں اس عمل کے ذریعے انہیں حیات شیر پائو کے ادھورے مشن کی تکمیل کا موقع بھی ہاتھ آیا ہے، لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ وہ مستقبل قریب میں اس مشن کی تکمیل میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔