بے اختیار میئر منفرد اقدامات

689

عدالت عظمیٰ 2013 سے سرکاری اداروں میں سروس رولز سمیت تمام امور کی خلاف قانون انجام دہی کو روکنے کے لیے نہ صرف احکامات جاری کرچکی ہے بلکہ دیگر معاملات کو بھی قانون کے دائرے میں لانے کے لیے متحرک ہے۔ اس کے باوجود بعض عناصر خصوصاً سیاسی کھلاڑی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آرہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ براہ راست عوامی اداروں کو تباہ کرنے کی حد تک نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنے والے بعض افراد کو توہین عدالت کے مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا اور بہت سوں کو آئندہ کرنا پڑھ سکتا ہے۔ مگر لاقانونیت کے دلدادہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آرہے اور وہ اپنے زیر کنٹرول ادارے میں خلاف قانون و اصول کارروائی کرتے ہوئے پورے نظام کو نقصان پہنچانے کے لیے فعال ہیں۔
بلدیہ عظمٰی کراچی میں خلاف قانون سرگرمیاں کوئی انوکھی بات ہی نہیں رہی۔ میئر وسیم اختر مبینہ طور پر اپنے میٹروپولیٹن کمشنر کی سفارشات پر آنکھیں بند کرکے وہ سب کچھ کررہے ہیں جس کی مثال ماضی میں اور کسی اور ادارے میں نہیں ملتی۔ ان دنوں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل ڈینٹل کالج ( کے ایم ڈی سی) میں بھی قوانین کی دھجیاں اڑانے کا سلسلہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ یہ سلسلہ کے ایم ڈی سی میں اپنی مدر آرگنائزیشن کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) سے آیا ہے۔ جہاں بہت اچھا نہیں ہورہا بلکہ صرف وہی ہورہا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔ فی الحال یہاں ذکر کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا کرنا مقصود ہے۔ کے ایم ڈی سی جس کا قیام 1991 میں عمل میں لایا گیا جس کا بنیادی مقصد میرٹ کی بنیاد پر خواہش مند طالب علموں کو ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کی تعلیم دینی ہے۔ اس کا انتظامی اور تعلیمی نظام بھی میرٹ اور قوانین کے تحت مرتب دیا گیا تھا۔ اس کی ابتداء حق پرستوں کے دور میں ہوئی یہ وہ دور تھا جب سابق سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ناظم مصطفی کمال تھے۔ لیکن اب تو بلدیاتی قوانین میں جن اقدامات کا اختیار میئر اور کے ایم سی کو نہیں ہے وہ بھی دھڑلے سے کیے جارہے ہیں۔ میئر وسیم اختر نے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے حوالے سے 13 جنوری کو اپنے دستخط سے دو احکامات وقفے وقفے سے جاری کیے، یہ دونوں احکامات اپنی نوعیت کے منفرد اور مضحکہ خیر ہیں۔ ان احکامات کا اختیار میئر اور میٹروپولیٹن کمشنر کو حکومت سندھ نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں نہیں دیا اس کے باوجود وسیم اختر نے شاید اس زعم میں یہ احکامات جاری کیے کہ وہ منتخب میئر ہیں مگر دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان احکامات کے لیے انہوں نے بلدیہ عظمیٰ کی اس کونسل کو بھی اعتماد میں نہیں لیا جس نے انہیں میئر بنایا ہے۔ ان آرڈرز کے مطابق کے ایم ڈی سی کے پرنسپل دندان ساز پروفیسر ڈاکٹر محمود حیدر کو جو 13 فروری کو اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوئے تھے انہیں اسی روز سے کالج کا پرووسٹ مقرر کردیا گیا۔ حالانکہ میئر کو بحیثیت چیئرمین کے ایم ڈی سی، گورننگ باڈی بھی گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے گریڈ کے کسی افسر اور ٹیچنگ اسٹاف کو ملازمت دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ وہ نہ مستقل اور نہ ہی کنٹریکٹ بنیاد پر کسی کو اس طرح کا موقع فراہم کرسکتے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ کے ایم ڈی سی میں پرووسٹ کی کوئی اسامی موجود بھی نہیں ہے اس کے باوجود میئر نے اس پوسٹ پر ڈاکٹر کو ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی نواز دیا۔ ڈاکٹر محمود حیدر کے لیے جاری کیے گئے حکم میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ انہیں کن بنیادوں پر ایک ایسی اسامی پر ملازمت فراہم کی گئی جو سرے سے کالج میں موجود ہی نہیں۔ مگر کمال ہوشیاری سے 13 فروری کے اس حکم نامے میں ڈاکٹر محمود حیدر کو کالج کا پرنسپل اور اکیڈمک کونسل کا چیئرمین لکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمود حیدر ڈینٹل سرجن ہیں ان کی کالج میں پرنسپل کی حیثیت سے تقرر بھی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اور موجودہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ یاد رکھنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر محمود حیدر کے دور میں حکومت کی منظوری اور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 22 ایسوسی ایٹ و اسسٹنٹ پروفیسرز اور پروفیسرز کو بھی ماہ مئی ملازمت فراہم کی گئی جن پر حکومت سندھ نے اعتراض کرکے تنخواہوں کی ادائیگی سے انکار کردیا ہے۔ محمود حیدر نے میئر کو بھی مبینہ طور پر اس بات کا جھانسا دیا تھا کہ کالج کے احاطے میں موجود ڈینٹل کلینک کو اپ گریڈ کرکے ایگزیکٹیو کلینک کے طور پر شام چار سے آٹھ بجے تک چلایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے مبینہ طور پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود یہ کلینک نہیں چلایا جارہا۔
خیال رہے کہ پرووسٹ کی اسامی جامعہ کراچی میں موجود ہے پرووسٹ جامعہ میں گرلز ہاسٹل کے انچارج کی حیثیت رکھتا ہے البتہ دنیا میں پرووسٹ صرف آکسفورڈ اور کیمبرج کالجز و یونیورسٹیز میں ادارے کے سربراہ کے طور فرائض انجام دیتے ہیں۔ میئر وسیم اختر نے اپنے دستخط سے جو دوسرا حکم جاری کیا ہے اس کے مطابق انہوں نے کالج کے میڈیکل اور ڈینٹل شعبوں کو علٰیحدہ علٰیحدہ کرکے ایک ہی کالج کے دو پرنسپلز کی نہ صرف اسامیاں تخلیق کی بلکہ ان اسامیوں پر دو ڈاکٹروں کو تعینات بھی کردیا۔ اس آرڈر کے مطابق ڈاکٹر ارشد شیخ کو میڈیکل اور ڈاکٹر سید شیراز حسین کو ڈینٹل شعبے کا پرنسپل مقرر کردیا۔ کالج میں دو گریڈ 20 اور 22 کے ڈاکٹرز کے لیے اسامیاں پیدا کیے جانے سے کالج کے انتظامی اخراجات میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ مالی بحران کی وجہ سے ہفتے تک ماہ جنوری کی تنخواہیں بھی نہیں مل سکیں تھیں جس کی وجہ سے ٹیچنگ اسٹاف سمیت تمام عملے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ بہرحال ’’جسارت‘‘ کی خبر کے مطابق حکومت سندھ نے کالج میں پرووسٹ کی اسامی پیدا کرنے اور اس پر کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹرمحمود حیدر کو خلاف قانون و ضابطہ مقرر کرنے پر انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ اس ضمن میں حکومت نے سندھ انکوائری و ایولیشن کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر اے ڈی سجنانی سے انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔