عدالتی فیصلے اور عمل…خرابی کہاں ہے

655

عدالت عظمیٰ نے تین ماہ سے سر کلر ریلوے کو فعال کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔ عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ ریلوے اپنی پانچ جائدادیں فروخت کر دے تو ادارے کے سارے خسارے ختم ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس نے سرکلر ریلوے کے بارے میں تبصرہ کیا کہ اگر یہ محکمہ حکومت سندھ کو دیا گیا تو اس کا حشر بھی کراچی ٹرانسپورٹ جیسا ہوگا۔عدالت کے احکامات کے حوالے سے حکمرانوںکی پیشانیوں پر بل تو پڑتے ہی ہین لیکن طویل عرصے سے پاکستانی قوم کے ساتھ ایک مذاق ہو رہا ہے ۔ عدالت میں مقدمہ چلتا ہے اور فیصلے سے زیادہ جج بولتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں میڈیا میں سرخیاں اُچھلتی ہیں ۔ پندرہ روز میں فلاںکام کرنے کا حکم ۔ ایک ہفتے میں فلاں کام کرنے کا حکم ۔ پھر دو ہفتے کے بعد مزید ایک ماہ کا وقت اور پھر چند مہینوں بعد کسی اور نئے مسئلے پر ایسے ہی احکامات آ رہے ہوتے ہیں۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ پچھلے احکامات اور نئے احکامات سمیت کسی پر عمل نہیں ہوتا ۔ یہ بات درست ہے کہ حکمران نا اہل بھی ہوتے ہیں اور بدنیت بھی… لیکن جب عدالت اس نتیجے پر پہنچ جاتی ہے کہ حکمران غلط کر رہے ہیں تو محض دو ہفتے میں کوئی کام کرنے کا حکم دے کر خاموشی کیوں اختیار کر لی جاتی ہے ۔ کراچی میں سرکلر ریلوے کی اراضی پر جو تجاوزات قائم ہیں وہ جن افسران نے اور جس ادارے نے قائم کرائیں وہ تو موجود ہیں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی ۔ گزشتہ ماہ عدالت نے دو ہفتے میں سرکلر ریلوے بحال کرنے کا حکم دیا تھا ۔ بہت سے حقائق سے آگاہ ہونے کے بعد تین ماہ کا حکم دیا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ عدالت کا یہ حکم بھی ہوا ہو جائے گا کیونکہ جن کرپٹ عناصر کے ہاتھوں میں نفاذ کی طاقت ہے وہ ہرگز ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ کئی عشرے قبل عدالت عظمیٰ نے حکم دیا تھا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بند کر دی جائیں لیکن یہ گاڑیاںاب بھی چل رہی ہیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک شہر کی سڑکوں پر نہ آئے لیکن آج بھی سولہ اور بیس بائیس وہیلر گاڑیاں دن کے اوقات میں بھی شہر کی سڑکوں پر دندنا رہی ہیں ۔ عدالت نے حکم دیا کہ سرکاری اور فوجی زمینوں پر سے شادی ہالز ختم کردیے جائیں ۔ اس حکم پر عملدرآمد کرنے والوں نے چھوٹے غریب اور کمزور پر تو بلڈوزر چلا دیا لیکن بڑے اور طاقتور کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اس اس ہلے میں تاریخی پلانیٹیریم بھی پی آئی اے انتظامیہ کی نالائقی کی وجہ سے لپیٹ میں آ گیا ۔ انتظامیہ اس پلانیٹیریم کے معاملات سے عدالت کوآگاہ نہیںکر سکی ۔ اب عدالتی احکامات کے باوجود فلاحی زمینوں اور سرکاری فوجی زمین پر شادی ہال اور سینما جگمگا رہے ہیں ۔ پلانیٹیریم کو ملک بھر میں چلانے والا شادی ہال ٹوٹ گیا ۔ عدالت کے حکم پر ریلوے اراضی کے قریب قائم غیر قانونی عمارتیں گرانے کا معاملہ جب سامنے آیا تو ایک عمارت گرا دی گئی اور اس کے برابر عمارت کھڑی رہی ۔ اب عدالت اس کی تحقیق کروائے کہ ایک پر الزام ہے کہ اس نے پچیس لاکھ دے دیے اور دوسرے کے مالکان نہ دے سکے ۔ یہاں بھی یہ عمارتیں بنانے اور بنوانے والے صاف بچ گئے ۔ عدالت عظمیٰ نے ملک ریاض پر جرمانہ کیا انہوں نے کیسے ادا کیا یہ بھی سامنے آ گیا ۔ حکومت ان کی ضامن بن گئی ۔ ملک ریاض کو ہزاروں ایکڑ اراضی کس نے دی ، اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ۔ جن لوگوں نے غلط کام کیے وہ صاف بچ نکلتے ہیں اور ملبہ غریب پر گرتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بجا کہا ہے کہ غریبوں کے گھر گرانا قبول نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ تجاوزات کسی صورت قبول نہیں لیکن انسداد تجاوزات مہم میں کسی غریب کے کچے گھر پر بلڈوزر نہیں چلے گا ۔وزیر اعلیٰ یہ بھی تو بتائیں کہ اگر تجاوزات کسی صورت قبول نہیں تو تجاوزات کی اجازت دینے اور ان کو تحفظ دینے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ۔تجاوزات کی ذمے دارسندھ حکومت بھی ہے جس کی ناک نیچے یہ کام ہوتا رہا ہے ۔ بات صرف کچی آبادی کی نہیں ہے پکی آبادی کی بھی ہے ۔ ایک مرتبہ پھر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کراچی کو سرکلر ریلوے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں ۔ ماس ٹرانزٹ اور میٹرو کے دور میں سرکلر ریلوے چل بھی سکے گی کہ نہیں خصوصاً ریلوے کی موجودہ وزارت اور وزیر کا جو حال ہے وہ ایک ریلوے نہیں چلا پا رہے تو سرکلر ریلوے کیونکر چلا لیںگے ۔ عدالت عظمیٰ کے ریمارکس ظاہر کر رہے ہں کہ وہ حکومت سندھ کے خلاف پہلے ہی سے ذہن بنا چکی ہے کہ اگر سرکلر ریلوے سندھ حکومت کو دی تو اس کا حشر بھی کراچی ٹرانسپورٹ جیسا ہو گا ۔ بصد احترام یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ وفاقی وزارت ریلوے نے ریلوے کا کیا حشر کیا ہے ۔ یہ نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے کہ سرکلر ریلوے کے روٹ پر کتنے مسافر ملیں گے اور کیا اس کے بعد سرکلر ریلوے چل پائے گی ۔ اگر اس زمین کو میٹرو ٹرین یا میٹرو بس کے لیے استعمال کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا لیکن یہ بات عدلیہ اور حکومت کے سوچنے کی ہے کہ عدالت کے فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق عمل کیوں نہیں ہوتا ۔