ظالم مومن اچھے یا ہمدرد کافر؟

801

پاکستان میں شاید ہی کسی کو اس بات کا علم ہوگا کہ پورے پاکستان اور خصوصاً کراچی میں جس اعلیٰ پیمانے پر آباد علاقوں میں توڑ پھوڑ مچی تھی اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے، وہ بھی لیے گئے قرضوں کی ایک شرط تھی۔ لاکھوں افراد کے سروں سے ان کی چھتیں چھین لینا اور لاکھوں افراد کا کاروبار تباہ کرنے کے پیچھے کھربوں روپوں کے قرضے کی کہانی تھی جو عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیے تھے۔ یہ قرض صرف توڑ پھوڑ سے مشروط نہیں تھے۔یہ طے تھا کہ توڑ پھوڑ سے کہیں پہلے سب متاثرین کو نہ صرف متبادل جگہ آباد کرنا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کے لیے ایسی جگہیں فراہم کرنی ہیں جہاں ان کا کاروباری سلسلہ مناسب انداز میں چل سکے۔ آج تقریباً 18 ماہ بعد عوام کے علم میں یہ بات آ رہی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں جو جو بھی تجاوزات آ رہی تھیں ان کو مسمار کرنے اور ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے قبل ان کے لیے متبادل انتظام شرط تھا جس کے لیے پاکستان کو فنڈ بھی جاری کر دیے گئے تھے لیکن ظالم حکمرانوں نے عمارتیں توڑنے اور دکانیں مسمار کرنے کے سارے آلات کے ساتھ بستیوں اور بازاروں پر ہلہ بول دیا اور چیختے پیٹتے سر پھوڑتے مردو زن اور بچوں کے سامنے ان کے برسہا برس سے تعمیر ہوئے مکانوں کو ریزہ ریزہ کردیا اور ان کو کھلے آسمان کے نیچے پناہ لینے کی جگہ تک فراہم نہیں کی گئی۔ یہ وہ سلوک ہے جو کافر سے کافر ملک بھی حالت جنگ میں کسی مفتوح کے خلاف نہیں کیا کرتا۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر ظلم کی یہ انتہا ہوئی کہ عوام کو اس بات کی ہوا بھی نہیں لگ سکی کہ دنیا نے جو قرض بھی دیا تھا وہ مشروط تھا۔ مسماری تو لازمی قرار دی گئی تھی لیکن اس سے قبل کہ کسی کو بے چھت کیا جاتا یا کسی سے اس کا روز گار چھینا جاتا، یہ طے تھا کہ ان سب کے لیے رہائش اور روز گار کا انتظام پہلے کیا جائے گا۔
ہم عوام کے ذہن میں دن رات یہ بات بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا بہت ظالم ہے اور اس نے اپنے سینے میں دل کی جگہ پتھر رکھا ہوا ہے اس لیے اسے اس بات کی کوئی پروا کبھی نہیں ہوتی کہ اس کے کیے گئے فیصلوں میں رحم کا گوشہ ہونا بھی چاہیے یا نہیں لیکن معلوم ہوا کہ دنیا ظالم نہیں بلکہ دنیا میں بسنے والے وہ تمام لوگ جو ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے حوالے دیتے نظر آتے ہیں، پتھر انہوں نے اپنے سینوں میں بھرے ہوئے ہیں اور جب وہ کوئی ظالمانہ فعل ادا کر رہے ہوتے ہیں تو وہ سب اپنے فرعونی جذبوں کو تسکین دے رہے ہوتے ہیں اور ان کے ظلم و جبر کے سامنے بلند ہونے والی مظلوں کی آہ و بکا، نالے آہیں اور کراہیں ان کے سیاہ دل و جگر کی سیاہی اور بھی بڑھا رہی ہوتی ہے۔ جس وقت بستیاں کی بستیاں اجاڑی جارہی تھیں اور بازار کے بازار دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑائے جارہے تھے تو نہ جانے کتنی بیواؤں، یتیموں، مسکینوں، محتاجو، بے روزگاروں اور بے کسوں نے ان ظالموں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر دہائیاں دی تھیں، کتنی ماؤں بہنوں اور بچیوں نے اپنے دوپٹے ان کے پیروں میں رکھ کر رحم کی اپیل کی تھی لیکن ان فرعونوں کو اپنی مذموں کارروائیوں پر ذرا بھی رحم نہیں آیا۔
کب کسی شہر میں ترقیاتی کام نہیں ہوا کرتے تھے، کیا لیاری ایکسپریس وے تعمیر نہیں ہوا، کیا نعمت اللہ کے دور میں ترقیاتی پروجیکٹ کی راہ میں آبادیاں مسمار نہیں کی گئیں اور کیا مصطفیٰ کمال کے دور میں کئی آبادیاں اور بازار مسمار نہیں کیے گئے۔ ایسا تو ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے لیکن کیا کسی بھی جگہ اس قسم کی کارروائی کی زد میں آنے والوں کو متبادل رہائش اور کاروبار کے لیے جگہیں فراہم نہیں کی گئیں؟۔ یہ کون فرعون اچانک پاکستان میں چھا گئے تھے جنہوں نے بسانے کے نام پر ویرانے تعمیر کرنے کی ٹھان لی تھی اور اب تک ان کی آنکھوں سے ٹپکنے والا خون ہے کہ تھم کر ہی نہیں دے رہا۔
جسارت میں چھپنے والی خبر ایسی ہے جس کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک میں کن درندوں کی حکومت ہے۔ یہ وہ ظالم ہیں جو اپنے چہروں پر معصومیت اور تبدیلی کا ماسک چڑھا کر سادہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے چلے آ رہے ہیں اور ایک ایک رہ گزر پر ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرتے چلے جارہے ہیں۔
خبر کے مطابق کراچی کو مجموعی طور ترقی دینے کے بڑے منصوبوں کے لیے عالمی بینک نے تجاوزات اور اسے ہٹانے کے حوالے سے بڑا اعتراض کرکے فنڈنگ روکنے کا عندیہ دیا ہے۔ جس کے بعد سندھ حکومت اور بیورو کریسی میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ عالمی بینک کی اس شرط کے باوجود کہ بینک کسی ایسے منصوبے پر فنڈنگ نہیں کرسکتا جس کے لیے لوگوں کو وہاں کی اراضی سے بے دخل کیا گیا ہو اور انہیں کوئی متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی ہو۔ ’’جسارت‘‘ کو اس حوالے سے عالمی بینک کے ذرائع نے بتایا ہے کہ منصوبوں کی راہ میں آنے والی تجاوزات اور ان تجاوزات کے خاتمے کے نتیجے میں عام لوگوں کو پیدا ہونے والی شکایات کی وجہ سے عالمی بینک نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بینک کسی ایسے پروجیکٹ پر فنڈنگ نہیں کرسکتا جس کی اراضی یا مقامات متنازع ہوں یا وہاں سے تجاوزات وغیرہ ہٹاکر متاثرین کو متبادل جگہ نہیں دی گئی ہو۔
اندازہ لگائیں کہ جو درد اسلامی جمہوریہ کہلانے والے پاکستان کے حکمرانوں کے دل میں اٹھنا چاہیے تھا اور جو دکھ اسے اپنے ہی عوام کو پہچانے میں ہونا چاہیے تھا، نہایت دردِ دل کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ درد ان لوگوں کے دل میں اٹھ رہا ہے جن کو ہم نہایت نفرت کے ساتھ نہ صرف کافر کہتے ہیں بلکہ ان کے مقابلے میں ہم اپنے آپ کو اللہ سے زیادہ قریب ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ یہ وہ عالمی بینک ہے جس نے کراچی کے لیے بہت سارے منصوبوں پر 652 ملین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جس میں کلک پروجیکٹ پر 230 ملین ڈالر، کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپرومنٹ پروجیکٹ (کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی) پر 160 ملین ڈالر اور کراچی نیبرہوڈ امپرومنٹ پروجیکٹ (کے این آئی پی) 250 ملین ڈالر خرچ کرنے تھے۔ عالمی بینک کی جانب سے دباؤ آنے کی وجہ سے سندھ حکومت نہایت پریشان ہے تاہم انہوں نے یقین دلایا ہے کہ وہ طے شدہ معاہدے پر عمل کرنے کی شرائط کی پابند ہے۔ اس ضمن میں جسارت نے جب چیئرمین، منصوبہ بندی و ترقیات بورڈ محمد وسیم سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک یہ چاہتا ہے کہ جہاں ان کی فنڈنگ ہو وہاں عوامی مسائل نہ پیدا ہوں اور نہ ہی عام لوگوں کی رہائشی سہولتوں کا نقصان ہو۔ اس وجہ سے ہم نے یہ طے کیا ہے کہ جہاں سے بھی رہائشی مکانات وغیرہ ہٹائے جائیں گے انہیں لیاری ایکسپریس وے کی طرح متبادل جگہ فراہم کی جائے گی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب منصوبوں کی راہ میں تجاوزات ہٹانے اور سارے متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی بات طے شدہ تھی تو پھر ایسا کیوں نہیں کیا گیا اور بے کسوں کی بد دعائیں لی گئیں۔ کیا اسلام اس بات کی ذرہ برابر بھی اجازت دیتا ہے کہ کسی کے ساتھ ظلم کیا جائے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مومنانہ طرز عمل کے بجائے فرعونی اور کافرانہ طرز عمل اختیار کیا گیا۔ آج وہ لوگ جن کو ہم کافر کہتے نہیں تھکتے، وہ ہمیں ’’رحم‘‘ کا درس دے رہے ہیں جو ہمارے لیے نہایت شرم کا مقام ہے۔