’’ڈرامے دیکھیے، لیکن میری بھی سُنیے‘‘

1040

کشتواڑ
اگر آپ ایک چیز کی اہمیت جانتے ہیں، اُسے ماننے اور اُس پر عمل پیرا ہونے کی لوگوں کو بار بار تلقین کرتے ہیں اور بدلے میں جب آپ کو لوگوں کی جانب سے کوئی خاطر خواہ ریسپانس نہیں ملتا تو بسا اوقات آپ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعینہٖ یہی صورت اللہ کے رسولؐ کے ساتھ بھی پیش آئی جب لوگوں کو فلاح و کامیابی کی طرف بلانے کے باوجود آپؐ کو اُن کی سرد مہری بلکہ شدید دشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس پوری صورتحال سے آپ ؐ اِس قدر غمگین ہوگئے تھے اللہ کو اپنے رسول کے دل کے قرار کی خاطر آیات نازل کرنی پڑیں: ’’اچھا، تو اے محمدؐ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔ (الکہف: 6-7) دوسری جگہ اِن الفاظ سے اللہ اپنے نبی کو تسلی دے رہے ہیں: ’’اے محمدؐ، شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر سکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھُک جائیں۔‘‘ (الشعراء: 3-4)
درج بالا تمہید باندھنے کی غرض دراصل آپ سب کے اذہان کو ترکی کے معروف ڈرامے ’’دیریلس ارتغرل‘‘ کی جانب متوجہ کرنا ہے۔ ڈراما ’’تاریخِ خلافتِ عثمانیہ‘‘ پر مبنی ہے۔ کہانی میں ارتغرل (خلافتِ عثمانیہ کے بانی ’عثمان‘ کے والد کا نام) کا مرکزی کردار خصوصیت کا حامل ہے جو ایک بہادر، مشیتِ الٰہی پر ایمان رکھنے والے ایک باغیرت اور باہمت سردار کا نام ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود معلومات کے مطابق یہ ڈراما تقریباً78 ممالک میں 100 سے زائد زبانوں میں نشر کیا جا چُکا ہے۔ اب تک ڈرامے کے پانچ سیزن تقریباً 300 اقساط کی صورت میں منظر عام پر آ چکے ہیں۔ فی الوقت اس کا چھٹا سیزن چل رہا ہے جس کی کچھ ابتدائی اقساط سامنے آ چکی ہیں۔ ڈرامے کی شروعات 2014ء میں ہوئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ترکی کے صدر اردوان کی خصوصی ہدایت کے تحت اِسے پوری دنیا میں پھیلانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
ترکی کا یہ ڈراما فی الوقت پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے۔ اردو زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہو رہا ہے اور پاکستان، ہندوستان، بنگلا دیش اور افغانستان کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھی اِسے شوق و جذبے کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ کشمیر میں جب سے انٹرنیٹ کے مفلوج نظام میں کچھ ’’حرکت‘‘ آئی تو فیس بُک ہو یا واٹس ایپ، ٹویٹر ہو یا انسٹا گرام ہر جگہ اِسی ڈرامے کے ڈنکے بجنا شروع ہو گئے۔ نہ صرف بچے ، نوجوان اور عورتیں بلکہ معمر اشخاص تک اِس ڈرامے کو دل کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ اب تک جس شخص نے اِس ڈرامے کو نہیں دیکھا ہے وہ سوشل میڈیا کے ان پلیٹ فارمز پر اظہارِ تاسف کرنے کے علاوہ اِس ڈراما کو حاصل کرنے کی ’’مشقت‘‘ بھی کر رہا ہے۔ گویا کہ وہ اِس ساری دوڑ میں یکتا فرد ہے جو اِس ’’بیش بہا متاع‘‘ کو حاصل کرنے سے محروم ہو گیا ہے۔
اب آئیے اصلی موضوع پر۔ جس طرح اِس ڈرامے کی زبردست کھوج وکرید اور تجسس و شوق کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کاش کہ ایسا ہی شوق اور تجسس اُن کاموں میں اختیار کیا جاتا جو کام انسان کہلانے والے اِس خاکی پُتلے کے لیے اُس کے خالق، مالک اور حاکم نے مختص کر رکھے ہیں اور جن کے کرنے میں اُس کی فلاح و کامیابی کا راز مضمر ہے۔ بات کی وضاحت کے لیے ’’قرآن‘‘ کو میں بطورِ مثال پیش کر رہا ہوں۔ ’’قرآن‘‘ نامی یہ کتاب پرنٹنگ پریس میں چھپنے والی 600 صفحات پر مشتمل فقط ایک کتاب ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ کلامُ اللہ، کتابِ عظیم و کتاب الاکبر ہے۔ یہ کتاب وہ قاعدے بیان کرتی ہے کہ اگر اُن پر عمل پیرا ہو جائے تو انسانیت کی نیّا پار ہو سکتی ہے، آدمیت کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے اور دنیا میں ہر سو امن و امان کی شعائیں پھوٹ سکتی ہیں۔ لیکن بقول شخصے ’’دنیا میں آج اگر کسی چیز کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم ہو رہا ہے تو وہ یہی اللہ کی کتاب ہے‘‘۔
سوچنے کا مقام ہے کہ آج ہمارے آس پاس متذکرہ ڈرامے کے لیے جس دلچسپی اور شوق کا اظہار کیا جا رہا ہے، کاش کہ اِسی طرح کے ذوق وشوق کا اظہار ’’قرآنِ مجید‘‘ کے لیے بھی کیا جاتا! اِسی طرح قرآن کی تلاوت کرنے، اِسے سمجھنے اور اس کے معنی و مفاہیم میں غوطہ زن ہونے کا اظہار ہوتا! اِسی طرح قرآن کی وسعتوں کو سمجھنے کے لیے اِس کے ماہرین (موجود و غیر موجود) کی سنگت اختیار کی جاتی! اِسی طرح ہمیں قرآن کے حقوق ادا کرنے کی فکر لاحق ہوتی اور اِسی طرح قرآن پاک کے ہرسو چرچے ہوتے! کاش کہ کچھ ایسا ہی ہوتا۔ اور ایسا ضرور بالضرور ہونا بھی چاہیے کہ یہی قرآن اِس کائنات کی تمام قیمتی اشیاء میں سب سے قیمتی شے ہے۔ یہ ایسی نعمت ہے کہ گداؤں کو شاہ اور زندگی سے فرار کا سوچنے والوں کو جینے کا سبب فراہم کرتی ہے۔ یہ انسان کو آبِ حیات عطا کرتی ہے جو اِس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اللہ کی جنتوں میں اُسے حیاتِ جاودانی وحیات ِ کامرانی عطا کرتا ہے۔
آج بھی انسانوں کو اللہ کی اِس عظیم کتاب کی طرف بُلانے والوں کی کَمی نہیں ہے۔ کمی بس اگر ہے تو ’’سمعنا و اطعنا‘‘ کہنے والوں کی ہے، حقیقت کائنات کے متلاشیوں کی ہے اور اس ’’سرچشمۂ علم‘‘ سے فیض اُٹھانے والوں کی ہے۔ اے کاش کہ کچھ ایسا بھی ہوتا کہ ہماری اِس پُکار پر کان دھرے جاتے اور ہماری یہ صدا دور دور تک پھیلے!
(نوٹ: متذکرہ ڈراما دیکھنے کے لائق ڈراما ہے۔ ڈرامے میں اسلام پسندی اور تبلیغِ اسلام کا عُنصر غالب نظر آتا ہے۔ بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی اخلاق سوز فلموں، ڈراموں اور نغموں کے بجائے ایسے اصلاحی ڈرامے دیکھیے جائیں تو کسی حد تک لوگوں کی پراگندہ سوچ کا سدِ باب ہو سکتا ہے۔ بالفاظِ دیگر اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد ممکن ہے کہ وہ اِس حیاء سوز فلمی کلچر سے اپنا دامن چھانٹ لیں گے)۔