کراچی کو کس نے اُجاڑا۔۔۔۔

416

2 سال سے کراچی کے اُجڑنے کی رفتار حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی ہے۔ پہلے کراچی میں صدر کے علاقے میں ایمپریس مارکیٹ اور دیگر مارکیٹوں کے گرد تجاوزات کے خاتمے کا حکم آیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ادارے اس قدر مستعد ہوگئے جو ان تجاوزات کے قائم کرانے میں مستعد تھے اور تجاوزات کے قیام کے دوران سوئے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایمپریس مارکیٹ کے اردگرد کی دکانیں غائب ہوگئیں۔ یہ دائرہ بڑھتا ہوا پورے صدر کے علاقے میں پھیل گیا۔ بلدیہ سے پوچھا گیا تو اس کے ذمے داروں نے کہا کہ عدلیہ کا حکم ہے۔ وہ چیف جسٹس چلے گئے جنہوں نے حکم دیا تھا۔ دوسرے آئے وہ بھی چلے گئے۔ بلدیہ نے بتایا کہ چیف جسٹس 50 سال پہلے والا کراچی واپس لانے کا حکم دے گئے ہیں۔ مگر اس وقت تو کہیں ٹرام بھی چلتی تھی اور سرکلر ریلوے بھی… نئے چیف جسٹس نے بھی اسی قسم کے احکامات دیے ہیں کہ جتنی تجاوزات سرکلر ریلوے کی اراضی پر ہیں انہیں مسمار کردیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی سے اسلام آباد تک احکامات میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے۔ 14 دن میں فلاں کام مکمل کرلیا جائے۔ چناں چہ کئی مرتبہ 14 دن گزرنے کے باوجود کام نہیں ہوتا لیکن پوچھے گا کون… اب ریلوے کے وزیر کو حکم ملا کہ 14 روز میں سرکلر ریلوے چلادو… وہ بھی پریشان ہوگئے کیسے چلائوں!! وہ اپنی ریلوے نہیں چلا پارہے۔ پھر ایک ماہ کا حکم ملا… اس قسم کے دیگر احکامات پہلے بھی دیے گئے تھے لیکن عملدرآمد کرنے والے ادارے خصوصاً بلدیہ کراچی کا ہتھوڑا صرف کمزور، غریب اور بے سہارا کے گھروں، دکانوں اور عمارتوں پر برستا ہے۔ چناں چہ ان کے خلاف کارروائی دن رات ایک کرکے مکمل کرلی جاتی ہے۔ اب کسی کو پتا نہیں کہ کراچی میں ایمپریس مارکیٹ سے شروع ہونے والا آپریشن کلین اپ صدر، گلشن اقبال سے ہوتا ہوا گلستان جوہر تک پہنچ گیا۔ گلستان جوہر بھی 14 روز میں صاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ توڑ پھوڑ کرنے والوں کا ایک ہی کام ہے تجاوزات کے ساتھ ساتھ خوبصورتی کو بھی ختم کرنا۔ چناں چہ اضافی تعمیرات، آگے بڑھے ہوئے بورڈز کے ساتھ ساتھ کئی فلیٹوں کے وہ فرش بھی توڑ ڈالے جو مکینوں نے فلیٹ خریدتے وقت رقم جمع کراکے بنوایا تھا۔
عدالتی حکم یقینا واضح ہوگا لیکن جن لوگوں کے پاس باقاعدہ الاٹ کی ہوئی دکانیں تھیں پچاس ساٹھ برس سے ٹیکس بھر رہے تھے ان کی دکان کیوں توڑی گئی انہیں اس سوال کا جواب نہیں ملا… اور اس سوال کا جواب بھی نہیں ملا کہ سرکلر ریلوے کی زمین پر تجاوزات بننے کی اجازت کس نے دی۔ ان افسران کو گھروں سے بلا کر گرفت کی جائے۔ وہ پارٹیاں اب بھی موجود ہیں جن کی ملی بھگت سے یہ ساری تجاوزات قائم ہوئیں لیکن تجاوزات کی اجازت دینے والے تو میئر بن گئے۔ سابق سٹی ناظم مصطفی کمال سیاسی جماعت کے رہنما بن گئے۔ فاروق ستار ایک اور دھڑے کے رہنما بن گئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا تسلسل ہے اس کے وزرا اور اداروں کے سربراہ بھی اسی کے ہیں آپس میں لڑنے والی یہ پارٹیاں کراچی میں تجاوزات کا جنگل بناتی رہیں، اپنی جیبیں بھری جاتی رہیں اور جب عدالت نے حکم دیا تو صرف تعمیرات مسمار کرنے کا… اس کی اجازت دینے والے کیوں محفوظ ہیں، عوام کے سروں سے راتوں رات چھت چھین لی، ہزاروں دکاندار بیروزگار کردیے گئے، پہلے یا ساتھ ساتھ غلط تعمیرات کرانے والوں کو بھی پکڑنا چاہیے تھا۔ بالآخر عالمی بینک نے کراچی کی ترقی کے لیے فنڈنگ روکنے کا اشارہ دے دیا۔ کیوں کہ عالمی بینک ایسی اراضی پر ترقیاتی فنڈز نہیں دیتا جہاں سے لوگوں کو بے دخل کیا گیا ہو اور ان کو متبادل نہ دیا گیا ہو۔ جس روز جسارت نے یہ خبر شائع کی اگلے روز وفاقی وزیر شیخ رشید کراچی میں تھے اور ریلوے کی زمین سے بے دخل ہونے والوں کو متبادل دینے کا اعلان کررہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی پاکستان میں دو قانون رائج ہیں۔ اس کا جواب ہے ہاں… دو قانون ہیں۔ غریب اور کمزور کے لیے فوری حرکت میں آنے والا قانون… اور طاقتور اور طاقت کے مراکز کے لیے الگ قانون… یہاں تک کہ چیف جسٹس بھی محتاط ہوگئے، 24 گھنٹے میں سرکلر ریلوے کی زمین پر تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا لیکن ڈی ایچ اے کے بارے میں کہا کہ تحقیقات کی تو پورا ڈی ایچ اے فارغ ہوجائے گا، ساتھ ہم بھی… ہمیں تمام کہانی معلوم ہے پورا ڈی ایچ اے غیر قانونی نکلے گا۔ فارغ ہوجائوں تو پروا نہیں۔ چیف صاحب آپ کو فارغ ہونے کا ڈر کیوں ہے۔ جب تمام کہانی معلوم ہے تو بسم اللہ کریں تحقیقات، قانون کی حکمرانی لائیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہوجائے گا؟ سب کے ذہن میں سوال ہے کہ ایک ہی حکم کے بعض حصوں پر عملدرآمد میں چیتے کی طرح پھرتی اور بعض حصوں کے لیے رینجرز کی ضرورت۔ کہیں شادی ہال پر پابندی اور کہیں شادی ہال اور سینما دونوں چل رہے ہیں۔ کچی آبادیاں ضرور ختم کریں لیکن ان آبادیوں کے لوگوں کو متبادل رہائش تو دی جائے۔ یہ کام کرنے کے لیے حکومت سندھ، بلدیہ کراچی اور وفاق کے نمائندوں کو ایک جگہ بیٹھنا ہوگا۔ اچانک حکم دے کر بسے بسائے گھر اُجاڑنے سے صرف بربادی ہوتی ہے۔ چوں کہ حکمرانوں کو اس سے غرض نہیں کہ عدالت کیا کہہ رہی ہے اور کیا چاہتی ہے، لہٰذا وہ تو آئی جی کو نکالنے اور رکھنے میں اُلجھے ہوئے ہیں اور کراچی ہر طرف ٹوٹا پھوٹا اُجڑا ہوا ہے۔ صدر میں دکانوں کے سامنے ملبہ، گلشن میں ملبہ اب تو گلستان جوہر میں بھی ملبہ ہے۔ بندر روڈ پر بھی ملبہ ہر طرف ٹوٹ پھوٹ سرکار کہاں ہے جو عوام کی سرپرست ہوتی ہے اسے عدالت عظمیٰ کا حکم بھی نافذ کرانا ہے اور عوام کو چھت اور روزگار بھی۔ سب سے بڑی مجرم سرکار ہے۔ بلدیہ میں ہو یا صوبے اور وفاق میں۔ یہی لوگ ووٹ مانگنے آتے ہیں، اگر یہ عدالت کے حکم سے بچنے کے لیے متفقہ طور پر قانون بنا سکتے ہیں تو عوام کے تحفظ کے لیے کوئی متفقہ قانون کیوں نہیں بناتے۔