آزادی کیا ہے۔۔۔!

949

انسان کا تعلق خواہ کسی مذہب، رنگ ونسل، علاقے سے ہو اس کو آزاد فضائوں میں سانس لینے کا حق حاصل ہے۔ کسی انسان کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ کسی دوسرے انسان کو بلاجواز اپنا غلام بنائے۔ انسان کے اس بنیادی حق کا سب سے بڑا علم بردار اور پاسدار اسلام ہی ہے جس نے اس کو اپنے دین کا ایک حصہ بنا لیا ہے اور کسی بھی غلام کی گلو خلاصی کو بہت بڑا نیک عمل قرار دیا ہے اور اس کا اجرو ثواب دنیا اور آخرت میں رکھا ہے سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے انسان کو اپنا غلام بنائے۔ عرب میں ظہور اسلام سے بہت صدیوں پہلے غلام رکھنے کا گہرا رواج تھا اور اس کو معاشرے میں کوئی برائی تصور نہیں کرتا تھا۔ اسلام نے تو انسان کے اس حق کا اس قدر دفاع کیا ہے کہ بعض لغزشوں کی پکڑ سے بچنے کے لیے غلام آزاد کرنے کی شرط رکھ دی ہے۔ کسی انفرادی غلامی سے آگے چل کر کسی ایک طبقے برادری یا قوم کو غلام بنانے کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔ آج بھی اس دور جدید میں جب صنعتی انقلاب آ چکا ہے دنیا میں کسی نہ کسی طور غلامی کا رواج پایا جاتا ہے۔ انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کر کے یہاں کے باسیوں کو غلاموں کی طرح سمجھا اور ایسے قوانین بنائے جس میں غلاموں کے لیے حقوق تو دور کی بات اس پر بات کرنے کی بھی اجازت نہیں اور افسوس کا مقام ہے انگریز کے غلامانہ قوانین آج بھی پاک و ہند میں رائج ہیں۔ انگریز نے ہم کو غلام سمجھا اس کا وہ خود ثبوت پیش کرتا ہے کہ جب کوئی افسر برصغیر سے اعلیٰ عہدے یا کسی بھی سطح کے افسر کے طور پر اس کو برطانیہ واپس جانا پڑجاتا تو اس کو وہاں اس درجے کی نوکری نہیں دی جاتی جس کا جواز یہ پیش کیا جاتا کہ چونکہ وہ شخص برصغیر سے غلاموں پر حکمرانی کر کے آیا ہے اس لیے اس کا دماغ اور خیالات غلاموں پر حکومت کرنے والا ہو چکا ہوگا جو برطانیہ کے ’’آزاد‘‘ ہر طرح کے سماجی معاشی اور معاشرتی حقوق سے آراستہ و پیراستہ عوام پر ایسے شخص کو مسلط نہیں کیا جا سکتا جو غلاموں کی طرح برطانیہ کے باسیوں کو گری ہوئی نظر سے دیکھے۔
جب امریکا وجود میں آیا تو وہاں پہلے گورے پہنچے جنہوں نے وہاں پہنچتے ہی ریڈ انڈینز کو اپنا غلام بنالیا اور پائوں میں بیڑیاں ڈال کر سارا سارا دن بیگار لی جاتی اور ایک روایت کے مطابق نیو یارک کے سب وے ٹرین کے لیے جو گہری گہری خندقیں کھودی گئیں تھی وہ انہیں ریڈ انڈین غلاموں سے بیگار لینے کے نتیجے میں کھودی گئیں تھیں اور جب ٹرین ایجاد ہوئی تو ان ہی خندقوں میں انگریزوں نے ٹرین کی پٹڑی بچھار کر ٹرینیں چلانا شروع کردیں بعد میں آنے والے وقتوں میں ان خندقوں پر چھت اور دیگر تعمیرات بنا کر ان کو دو منزلہ اور تین منزلہ ٹریک ڈال کر اور ٹرینیں چلا دی گئیں۔ واللہ عالم بالصواب۔ لیکن اسلام کی کرنیں روشن ہونے کے بعد سے مسلم تاریخ میں کہیں بھی غلامی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا چونکہ مسلمان اس عمل کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں نہ خود غلامی قبول کرتے ہیں اور نہ کسی کو اپنا غلام بنا تے ہیں۔ وقت کی ستم ظرفی دیکھیں کہ آج دنیا بھر میں اگر کوئی قوم غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہی ہے تو وہ مسلم قوم ہے۔ کہیں مجسم غلام بنائے گئے ہیں کہیں اقتصادی غلام کہیں قرضوں کے غلام اور بھارت میں تو پوری وادی کشمیر ہی غلامی کی ریاست موجود ہے جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور ایک کروڑ مسلمانوں کو غلاموں سے بدتر حالات سے نبرد آزما ہونے پر مجبور کیا ہوا ہے اور اقتصادی طور پر بھارت میں آئین کے تحت ہر ادارے میں مسلمانوں کا مقرر کردہ کوٹا بھی یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے لیکن وہاں کی عدالت عظمیٰ اس بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ بھارت نے شہریت کے قانون کو نافذ کرکے 24 کروڑ مسلمانوں کو اپنا اقتصادی غلام بنانے کے ساتھ ان کے وجود ہی کو مشکوک بنا دیا ہے۔ جن مسلمانوں کی بیس بیس پشتیں بھارت میں آباد چلی آ رہی ہیں ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ اپنی شناخت کروائو وہ اپنی کیا شناخت کروا سکتے ہیں؟ وہ تو وہی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ سامنے رکھ دیںگے جو حکومت ہند نے خود برضا و رغبت ان کو جاری کرتے ہوئے ان کو بھارتی شہری تسلیم کیا ہوا ہے۔ عجیب خبط الدماغ حکمران ہیں جن کی جیب میں اسی حکومت کا کارڈ موجود ہے وہ حکومت خود پاگل پن کی انتہا کو پہنچتے ہوئے اپنے ہی جدی پشتی شہری سے شناخت طلب کر رہی ہے۔
ادھراسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر کے اپنی اسٹیٹ قائم کر لی ہے اور 72 سال سے جبر و استبداد کی بنیاد پر ناجائز ریاست اسرائیل بنالی۔ ادھر امریکا و برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد عرب خطے کے حصے بخرے کر کے تقسیم در تقسیم کی چھری سے عرب کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور آج پورا عرب خطہ امریکا و برطانیہ کا اقتصادی اور معاشی غلام بنا ہوا ہے۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو ایسا لگ رہا ہے کہ گوروں نے صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی حزیمت کا بدلہ تلوار کے بجائے عربوں کو اپنا اقتصادی غلام بنا کر لے رہے ہیں اور جو شیوخ عرب پر حکمرانوں کی صورت میں دنیا کو نظر آتے ہیں وہ بلکہ انگریز کے لگائے ہوئے مہرے ہیں۔ یہ گونگے مہرے امت کے مسائل سے اس طرح کنارہ کش ہیں کہ جیسے امت سے انکا دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں۔
کشمیر فلسطین روہنگیا مسلم ایغور مسلم ایرانی سنی مسلمان ہوں یا عراق لیبیا اور افغانستان میں مسلمان گزشتہ کم و بیش 100 سال انگریزوں کی پالیسیوں کی چکی میں پس رہے ہیں ان کے لیے آواز اٹھانا عرب حکمرانوں کے لیے شجر ممنوع ہے۔
اس وقت مسلم دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جو انگریز کی غلامی سے آزاد ہو کہیں سیاسی غلامی مسلط کر رکھی ہے جیسے مشرق وسطیٰ اور مصر اب عراق اور لیبیا بھی اسی کیمپ میں شامل ہو چکے ہیں کہیں اقتصادی جکڑ بندیوں سے غلام بنایا ہوا ہے کہیں جمہوریت سے محروم رکھا ہوا ہے اور جنرل سیسی جیسے ظالم حکمراں مصر کی رعایا پر مسلط کر کے ان کو فوجی غلامی کی وادیوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جسمانی آزادی سے زیادہ ذہنی اور فکری آزادی ضروری ہے۔ بظاہر مسلم دنیا کا ہر باشندہ آزاد ہے مگر اس کی یہ آزادی صرف جسمانی آزادی ہے جبکہ وہ غلامی کی تعریف کے کسی نہ کسی شکنجے میں کسا ہوا ہے۔
اگر غلامی کے اس دائرے کو یورپ اور امریکا تک وسیع کر دیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں کے عوام بھی اس طرح کی آزادی سے بہرہ مند نہیں ہیں جس آزادی کے وہ پیدائشی مستحق ہیں۔ وہاں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے زیر سرپرستی اپنی ہی اولاد کو اصلاح کی طرف راغب کرسکے یا اصلاح معاشے کی کوئی تحریک چلا سکیں۔ معاشی معاشرتی اور سماجی قوانین کی سختیوں میں بری طرح جکڑے ہوئے امریکی اور یورپ عوام کسی نجات دہندہ کی راہ تک رہے ہیں۔ شاید اسی بے چینی کے اظہار کے لیے وہاں کی بڑی بڑی بسوں اور دیگر وہیکلز پر Jesus will come لکھا ہوتا ہے کہ جب عیسیٰؑ آئیں گے تو ہم کو ہمارے حقوق دلوائیں گے اور ظالموں سے حساب لیں گے۔ ساڑھے سات ارب نفوس پر مشتمل دنیا کی آبادی کا ہر فرد کسی نہ کسی غلامی کے دائرے میں محبوس ہے جبکہ آزادی کیا ہے اس کی صحیح تعریف صرف اسلام کے نظام حیات میں ہی دیکھی جا سکتی ہے یعنی انسان کو انسان کی اطاعت سے نکال کر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی طرف راغب کرنا اور یہی آزادی کا حتمی اصول اور اس کی حتمی تعریف ہو سکتی ہے۔