آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے والا ملزم جیل سے فرار

827

پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے 2017 میں حراست میں لیے گئے تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسن نے دعوی کیا ہے کہ وہ اہل خانہ سمیت پاکستانی حکام کی تحویل سے فرار ہوگئے ہیں اور اس وقت وہ ترکی میں ہیں۔

احسان اللہ احسن نے سوشل میڈیا پر ایک آڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے اپنی نظربندی اور فرار کے حالات بیان کیے ہیں۔

انہوں نے آڈیو پیغام میں کہا کہ میں احسان اللہ احسن ہوں۔ میں تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کا سابق ​​ترجمان ہوں۔ اللہ کی مدد سے میں 11 جنوری 2020 کو حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہوں۔

میں نے ایک معاہدے کے تحت 5 فروری 2017 کو پاکستانی سیکیورٹی حکام کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ میں نے 3 سال تک اس معاہدے کی پاسداری کی لیکن پاکستانی حکام نے اس کی خلاف ورزی کی اور مجھے اپنے بچوں سمیت جیل میں رکھا۔ سیکیورٹی فورسز کی اس وعدہ خلاف ورزی نے ہی مجھے یہ انتہائی قدم اٹھانےپر مجبور کیا ہے۔

احسان اللہ احسن نے مزید کہا کہ وہ جلد ہی ایک اور تفصیلی بیان جاری کریں گے جس میں وہ پاکستانی سیکیورٹی حکام اور ان کے درمیان ہوئے معاہدے کا خاکہ پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا اس خاکے میں اس بات کا بھی ذکر ہو گا کہ یہ معاہدہ مجھ سے کن شرائط و ضوابط اور کس کی منظوری پر ہوا تھا جس کے تحت انہیں اور ان کے اہل خانہ کو گذشتہ تین سالوں سے حراست میں رکھا گیا۔ نیز کن عہدیداروں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ معاہدے پر عمل درآمد ہوگا۔

آڈیو پیغام کے اختتام پر ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان کا کہنا تھا کہ میں اس وقت اپنی بیوی، بیٹے اور بیٹی کے ساتھ ترکی میں ہوں۔ مجھ سے یہ سوال نہ کیا جائے کہ میں یہاں کیسے پہنچا کیونکہ یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا۔

احسان اللہ احسن کے اس دعوے پر پاکستان مسلح افواج کی طرف سے فی الحال کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے جبکہ سیکیورٹی انتظامیہ کے ذرائع نے بھی بی بی سی اردو کو اس حوالے سے کوئی بیان دینے سے انکار کردیا ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایس پی آر کےترجمان ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے 17 اپریل 2017 کو میڈیا کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ احسان اللہ نے مسلح افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ آصف غفور نے کہا تھا کہ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس میں ایک سابق ​دشمن نے خود کو ہمارے حوالے کردیا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کی حیثیت سے احسان اللہ احسن نے مندرجہ ذیل حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی:

سال 2012 میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ، اسی سال پشاور میں باچا خان انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر راکٹ حملہ، جون 2013 میں گلگت بلتستان میں نو غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت، نومبر 2014 میں واہگہ بارڈر پر خودکش حملہ جس میں 60 افراد ہلاک ہوئے تھے، اگست 2015 میں پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ اور 13 دیگر افراد کا قتل، مارچ 2016میں  علامہ اقبال پارک ، لاہور میں ہونے والے خودکش بم دھماکہ جس میں72  افرادجاں بحق ہوگئے تھے۔

احسان اللہ احسن سال 2014میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے وحشیانہ حملے کے مبینہ ملزم بھی ہیں جس میں 150 افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔