مسئلہ کشمیر و فلسطین: تصادم کے محرکات

386

جنرل مرزا اسلم بیگ
امریکا کے تذویراتی دفاعی شراکت داروں نے اقوام متحدہ کی سات دہائیاں قبل پاس کردہ قراردادوں کو روندتے ہوئے مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر یک طرفہ حل مسلط کر دیا ہے جس سے عالم اسلام پر مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ در حقیقت دو مختلف علاقوں میں تصادم کی مختلف نوعیت کی وجہ سے مستقبل میں پورے خطہ خطرات سے دوچار ہوچکا ہے۔
کشمیر کی تحریک آزادی کے اندرونی محرکات خاصے مضبوط ہیں جن کی وجہ سے آج یہ مسئلہ ابلتے ہوئے لاوے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اسے طاقت کے ذریعے دبانا ناممکن ہے۔ اب تک تو یہ تحریک پر امن ہے لیکن اگر کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو جلد ہی پرتشدد راہ اختیار کر لے گی۔ کشمیریوں کے اندر سے جہادی گروپ ابھریں گے جو دنیا بھر سے آنے والے جہادیوں کے ساتھ مل کرایسی ہی صورت حال پیدا کر دیں گے جیسی کہ افغانستان پر روس اور امریکا کے قبضے کے دوران پیدا ہوئی تھی۔ مودی کی جانب سے کشمیر کو ضم کرنے کے اقدامات کسی صورت واپس نہیں لیے جائیں گے جس سے تصادم مزید خون خرابے کا سبب بنے گا۔ خالصتان کی تحریک سے مقبوضہ کشمیر میں متعین آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کے لیے مزید دکھ اور مسائل پیدا ہوں گے۔ البتہ پاکستان کی ’’دوسروں کی جنگ میں شامل نہ ہونے‘‘ کی پالیسی کا بھی امتحان ہوگا۔
فلسطین کی تحریک کے اندرونی محرکات کمزور ہیں کیونکہ ان کی قیادت منقسم ہے لہٰذا فلسطینیوں کو یہی سوچ کر اپنی قسمت پر سمجھوتا کرنا ہوگا کہ: ’’ثابت قدم رہتے ہوئے مزاحمت جاری رکھنے سے ہی اسرائیل کے لیے چیلنجز پیدا کیے جاسکتے ہیں‘‘۔ کیونکہ ’’اگر انہیں مزید کچھ ملنے کی امید نہیں تو اسی پر اکتفا کرنا ہوگا جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے‘‘۔ اس طرح منقسم قیادت اور پھر آدھی عرب دنیا امن منصوبے کو قبول کر چکی ہے جس سے ٹرمپ کو اپنی مرضی کا حل مسلط کرنے کی جرات ہوئی ہے جیسا کہ فلسطینیوں کی نہ کوئی آواز ہے اور نہ کوئی حق‘ بس انہیں قیدیوں کے کیمپ میں ڈال دیا گیا ہے۔ دنیا نہ تو ان کے بیانیے کو سن رہی ہے اور نہ ہی حقائق کو دیکھتی ہے۔
ٹرمپ کے ’’نظریہ امن نے فلسطینیوں کو نہ صرف مذاکراتی عمل میں شمولیت کے حق سے محروم کیا ہے بلکہ انہیں اپنی سرزمین‘ آزادی اور قومی وقار سے بھی محروم کر دیا ہے‘‘۔ اس منصوبے نے مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کی بھی منظوری دے دی ہے۔ منصوبے کی تمام شرائط کو چار سال کے عرصے کے اندر اندر قبول کیا جانا لازم ہے ورنہ اسرائیل مزید علاقوں پر قبضہ کر لے گا۔ یہ امن منصوبہ اسرائیل میں بیٹھ کر ٹرمپ کے داماد اور امریکی سفیر ڈیوڈ فرائڈمین نے تیار کیا ہے۔ منصوبے کا ہر پہلو مزاحیہ انداز کا حامل ہے جسے امریکی صدر نے انتہائی عجلت میں جوں کا توں قبول کیا ہے۔ فلسطینی کس کے خلاف احتجاج کریں‘ وہ تو اسی کشمکش میں ہیں کہ ’’ان کے اندرونی مسائل کا حل عباس کے پاس ہے یا اسرائیل کے پاس‘‘۔
امن منصوبے کا حساس ترین حصہ ایران کے متعلق ہے جہاں القدس کے کمانڈر کے قتل کے بعد فلسطین کے تصادم کی کیفیت کو نئی جہت ملی ہے۔ امریکیوں کو ہرگز یہ گمان نہیں تھا کہ ایران اس قدر جلد بھرپور جوابی کاروائی کرتے ہوئے عراق میں امریکی اڈوںکو نشانہ بنائے گا اور افغانستان میں کارروائی کرتے ہوئے امریکا فضائیہ کے اعلیٰ تکنیکی فضائی جہاز کو مار گرائے گا۔ گھبراہٹ کے عالم میں اسرائیل نے امریکا پر زور دیا کہ اس صورت حال کو مزید نہ پھیلایا جائے کیونکہ اس طرح جنگ سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
عالم اسلام منقسم ہے حتیٰ کہ او آئی سی نے بھی ایران کو کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہیں دی کیونکہ ایسا کرنا اس کے آقا سعودی عرب کے لیے ناقابل قبول ہے جنہوں نے عمران خان کو کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے روک دیا تھا جبکہ عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے یہ کانفرنس ایک متحرک اور موثر کردار کی حامل ہو سکتی تھی۔ اس کے باوجود یہ امر باعث فخر ہے کہ ایران گزشتہ چار دہائیوں سے جابرانہ پابندیوں کے باوجود نہ صرف اپنے ملی وقار اور غیرت کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا ہے بلکہ دنیا کی سپر پاور کی جانب سے پیش کردہ چیلنجزکے خلاف طاقتور جذبہ حریت کی مثال قائم کی ہے۔ صرف بائیس میزائلوں کے پہلے حملے میں ایران نے مضبوط بینکروں میں دبکے امریکی فوجیوں کو دماغی امراض میں مبتلا کر دیا ہے اور ابھی تک امریکی اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے۔ اس تناظر میں اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اسرائیل پر متعدد اطراف سے ہزاروں کی تعداد میں میزائلوں اور راکٹوں کی بارش ہوگی تو اس پر کیا گزرے گی۔ آنے والے دنوں میں یہ منظر دیکھنے والا ہوگا۔
اسرائیل کو ایک نئی قسم کی گوریلا جنگ کا سامنا ہوگا جس کے خلاف اس کے پاس کوئی دفاعی صلاحیت نہیں ہے۔ یہ خطرہ 2006ء کی حزب اللہ اسرائیل جیسا ہوگا جس میں اسرائیل کو شکست اٹھانا پڑی تھی۔ 2015ء کے دوران افغانستان میں لڑی جانے والی قندوز کی جنگ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ آسان الفاظ میں: ’’اسرائیل کے خلاف یہ گوریا جنگ پہلے مرحلے میں متعدد اطراف سیفری فلائٹ راکٹوں‘ میزائلوں اور ڈرونز سے شروع ہوگی جو اس کے آئرن ڈوم دفاعی نظام اور عوامی حوصلے کو تباہ کر دے گی۔ اس کے بعد دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑیاں مختلف مقامات پر حفاظتی حصاروں کو توڑتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں خودکش بمباروں کو اسرائیل کے اندر گھسنے کی راہ ہموار کریں گی جس سے دشمن کے دل و دماغ دہلا دیں گے‘‘۔
امریکا اور اس کے پٹھو اسرائیل اور بھارت کے سامنے یہی راستہ ہے کہ وہ یا تو مودی اور ٹرمپ کے امن منصوبوں پر عمل کریں یا پھر کشمیریوں اور فلسطینیوں سے گفت و شنید کی راہ اختیار کریں تاکہ مسائل کا ایسا باوقار حل تلاش کیا جا سکے جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔