صحت پر تفکرات اور غم و غصہ کے اثرات

864

حکیم حافظ طاہر محمود
خوش طبعی اور خوش مزاجی انسان کی صحت کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے فکر، پریشانی، غم اور غصہ سے ہر ممکن طور پر گریز کرنا چاہیے۔
ہوا، پانی اور غذا کی طرح مختلف جذبات اور خیالات بھی انسانی جسم کو متاثر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تفکرات، پریشانیوں، غم اور غصہ میں مبتلا ہوکر انسان میں بہت نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
بعض جذبات انسان کے لیے صحت بخش ہوتے ہیں اور بعض جان لیوا۔ لہٰذا صحت افزا جذبات کو ابھارنے کی کوشش کرنی چاہیے اور نقصان دہ جذبات سے حتیٰ الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔
مایوسی:مایوسی، فکر اور پریشانی، رنج و غم، خوف و ہراس، نفرت اور غصہ ایسے جذبات ہیں جن سے صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور یہ جذبات جسمانی نظام کو درہم برہم کردیتے ہیں۔
مختلف دماغی کیفیات اور جذبت کا ردعمل زیادہ تر دل پر ہوتا ہے۔ منفی جذبات (جیسے غم و غصہ اور فکر وغیرہ) سے خون کا دبائو بڑھتا ہے۔ حتیٰ کہ متواتر ایسے جذبات میں مبتلا رہنے سے خون کے دبائو میں زیادتی مستقل صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اسی طرح خون کی رگوں کی لچک کم ہوجاتی ہے اور ان میں پھیلنے و سکڑنے کی قدرتی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔
اعصاب :ناخوشگوار گفتگو اعصاب کے لیے نقصان دہ ہے ہی، اس کے ساتھ ہی ایسی گفتگو سننے اور خوفناک مناظر دیکھنے سے بھی دل پر خراب اثر پڑتا ہے۔
انسانی دل عام جسمانی کاموں سے اتنا متاثر نہیں ہوتا جتنا کہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور حادثات سے۔ دل مختلف قسم کی دماغی کیفیات سے متاثر رہتا ہے اس لیے اعصاب کو قوی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
پریشانیوں سے اجتناب:چونکہ جسم پر دماغ کی حکمرانی ہے لہٰذا دماغ میں جس قسم کے خیالات پیدا ہوں گے۔ اسی قسم کے اثرات جسم پر رونما ہوں گے۔ اچھے خیالات اور خوشگوار جزبات جسمانی صحت کو برقرار رکھتے ہیں جسم کے سارے اعضا صحیح طور پر اپنا کام انجام دیتے ہیں اور جسم آسانی کے ساتھ بیماریوں کا مقابلہ کرسکتا ہے اس کے برعکس اگر خیالات پریشان ہوں، دماغ الجھنوں، پریشانیوں اور فکروں میں ڈوبا ہوا تو صحت خراب رہتی ہے۔ مستعدی اور چستی و پھرتی ختم ہوجاتی ہے اور انسان کو طرح طرح کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں اس لیے خواہشات کو اپنی طبیعت پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مرضی کے خلاف باتوں پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہنس کر ٹال دینا چاہیے یا کسی تفریح میں مشغول ہونا چاہیے۔ تنہائی پریشانی کی غذا ہے اس لیے پریشانی کے لمحات میں اچھے دوستوں کے ساتھ کوئی دلچسپی پیدا کرنی چاہیے اور پریشانیوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں دینی چاہیے۔
قناعت قناعت کا جذبہ دل کے اطمینان کا باعث ہے اور صحت افزا ہے، اس کے مقابلہ میں حرص خواہ وہ مال و دولت کی ہو یا مرتبہ کی صحت کی بہت بڑی دشمن ہے۔
تشویش، پریشانی، غم و غصہ غیر محدود لالچ اور ناجائز خواہشات، گھریلو زندگی کی تلخیاں اور کاروباری الجھنیں، جو دماغ کو رت دن پریشان کیے رہتی ہیں ان سے دل و دماغ کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ ذہنی اور اعصابی کمزوری کے نتیجہ میں دل کے امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔
غصہ :بھوک کی حالت میں غصہ، کا جذبہ نہایت شدت سے طاری ہوتا ہے ایسی صورت میں فوراً کچھ کھا لینا چاہیے یا کم از کم ایک گلاس پانی پی لینا چاہیے تاکہ معدہ مصروف کار ہوکرجذبات کو حاوی نہ ہونے دے۔
سکون کا ایک لقمہ اضطراب کی ضیافت سے بہتر ہے۔
مایوسی، ناامیدی، غصہ، رنج اور نفرت وغیرہ غدود اور ان کے متعلقہ اعضا کو بھی متاثر کرتے ہیں جو جسمانی نظام کو چلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر معدے کے زخموں کی شکایت ان لوگوں کو نہیں ہوتی ہے جنہیں تفکرات اور ذہنی پریشانیاں نسبتاً کم ہوتی ہیں۔ حد سے زیادہ تنائو اور کاروباری پریشانی انسان کو بہت جلد بیمار کردیتی ہیں۔