ٹرمپ نے ٹھیک کیا

1078

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں وائٹ ہائوس میں مشرقی وسطیٰ کے لیے ’’امن منصوبہ‘‘ پیش کردیا۔ اس منصوبے میں فلسطین کی سرزمین پر پرانے قبضے کو نئے الفاظ کے ساتھ مزید اسرائیلی قبضے میں دینے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ یہ کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ میں جن عرب علاقوں پر قبضہ کرچکا ہے انہیں اسرائیلی سرحد کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ منصوبے میں ’’دو ریاستی حل‘‘ سے اتفاق کیا گیا ہے تاہم اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت نہیں ہوگا بلکہ اس سے متصل علاقہ ’’ابودیس‘‘ فلسطینی دارالحکومت کہلائے گا اور مزید یہ کہ اگر حماس اور فلسطینی اتھارٹی امریکی امن منصوبے کے تحت معاہدہ کرنے سے انکار کرے گی تو امریکا نہ صرف اپنی امداد روک دے گا بلکہ دیگر ممالک کو بھی مجبور کرے گا کہ وہ فلسطینیوں کو امداد نہ دیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم ’’حماس‘‘ نے امریکی منصوبے کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ عالم اسلام کے عوام کا بھی شدید ردعمل آیا ہے تاہم مسلم ممالک اور بالخصوص عرب حکمرانوں کا ردعمل اتنا زیادہ موثر نظر نہیں آیا کہ جس کے بعد امریکا اپنے ’’شیطانی منصوبے‘‘ پر نظرثانی کرنے کے لیے مجبور ہوجاتا۔
صدر ٹرمپ کے ’’شیطانی منصوبے‘‘ پر ہمیں کوئی حیرت اور افسوس نہیں کیوں کہ صدر ٹرمپ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے قیام کے لیے جس توسیع پسندانہ اور جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ رات کے اندھیرے میں یا کسی دھوکے سے جاری نہیں ہے بلکہ موجودہ صدر سمیت تمام امریکی صدور اسرائیل کے قیام سے لے کر اُس کے استحکام اور پھیلائو تک کی تمام منصوبہ بندی اور جارحیت میں اعلانیہ برابر کے شریک اور ملوث رہے ہیں۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے جن پڑوسی عرب ممالک کی زمین پر قبضہ کیا تھا اس قبضے میں وقتاً فوقتاً مزید اضافے کا سبب بھی امریکی اسلحہ، ڈالر اور سفارتی امداد بنتی رہی ہے جو عربوں کے مقابلے میں ہمیشہ اسرائیل کو حاصل رہی۔
افسوس اور حیرت ’’عرب ممالک‘‘ پر ہے کہ جن کے اپنے امن، ترقی، استحکام اور احترام کے لیے ضروری تھا کہ وہ آزاد فلسطینی مملکت کے قیام کے لیے کوئی ایسی موثر حکمت عملی اختیار کرتے کہ جس کے نتیجے میں اسرائیل کا گھیرائو کرنا ممکن ہوسکتا اور یوں امریکا کو بھی مجبور کردیا جاتا کہ وہ غیر جانبدارانہ پالیسی کے ساتھ ’’مسئلہ فلسطین‘‘ کا قابل قبول حل تلاش کرنے میں مدد دینے کے لیے تیار ہوجاتا مگر عرب ممالک ایسا کچھ نہ کرسکے۔ حالاں کہ ’’مسئلہ فلسطین‘‘ پر تمام عالم اسلام کی عرب ممالک کو مکمل حمایت حاصل تھی اور ہے۔ تاہم مزید شرمناک صورتِ حال یہ ہے کہ بیشتر عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ اور خفیہ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ عرب ممالک کے دارالحکومتوں سے ’’تل ابیب‘‘ کو کوئی سخت پیغام جانے کے بجائے مفید مشورے اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی پیشکش کی جاتی ہیں۔ اس طرح کے خیرسگالی کے تمام پیغام اور سفارتی تعلقات فلسطینیوں کی قیمت پر ہیں کہ جو آئے دن اسرائیلی فوجیوں کے ظلم و درندگی کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ یہ وہ پیغام ہیں جو بذریعہ وائٹ ہائوس اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کو عرب حکمرانوں کی جانب سے ارسال کیے جاتے ہیں کہ آپ فکر نہ کریں فلسطینیوں کا خون اور آنسو ہماری خیریت اور تمہارے وجود پر قربان ہیں۔ حالاں کہ فلسطینی تنہا نہیں، 56 اسلامی ممالک کا وجود، 2 ارب سے زائد مسلمانوں کی افرادی قوت، وسائل سے مالا مال عالم اسلام بہترین اسلحہ سے لیس لاکھوں کی فوج، جغرافیے اور سرحدوں کا آپس میں جڑا ہوا زمینی رشتہ، شاندار ماضی، قابل فخر تاریخ اور مقدس عقیدے کی حامل پوری اسلامی دنیا فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے مگر اس کے باوجود فلسطینیوں کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹ نہیں پارہیں۔ ان کے زخم مندمل نہیں ہورہے، انہیں عزت اور آزادی سے محروم رکھا جارہا ہے۔ جیلیں، گولیاں، اسپتال اور جنازے سے ان کا مقدر بن چکے ہیں۔ روزگار کے مواقعے اور مسجدوں کے دروازے ان پر بند کردیے گئے ہیں۔ عقیدہ توحید اور ختم نبوت کو مٹانے کے لیے مسجد اقصیٰ اور مسجد الخلیل پر پہرے لگادیے گئے ہیں۔ فلسطین کی بیٹیاں اور بیٹے عقوبت خانوں میں سسک رہے ہیں، مسجد اقصیٰ کا امام دعائوں کے سہارے زندہ ہے، فلسطین کی سرزمین جو انبیا علیہم السلام کا وطن اور قبلہ اوّل کا اعزاز رکھتی ہے لہو رنگ ہے، دُنیا کے تمام مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں مگر پھر بھی نہ تو بیت المقدس آزاد ہوتا ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کو اپنا وطن ملتا ہے جس کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ عرب ممالک کا وہ بزدلانہ کردار ہے جس کا ہر عمل اسرائیل اور امریکا کے شیطانی منصوبوں کو تقویت پہنچاتا رہتا ہے۔
لہٰذا اس تمام صورت حال میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جب ’’قیادت‘‘ غیرت سے خالی ہوجائے تو پھر قومیں غلام ہوجاتی ہیں، کوئی قوم کتنی ہی غیرت مند کیوں نہ ہو اور فوجیں کتنی ہی بہادر ہوں تب بھی جب تک سپہ سالار بہادر اور بادشاہ غیرت مند نہیں ہوگا عقیدے اور آزادی کی حفاظت ممکن نہیں۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب امریکا مقبوضہ بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کررہا تھا تو اُس وقت اگر مسلم حکمرانوں کی طرف سے کوئی سخت ردعمل دیا جاتا تو آج یہ نوبت نہ آتی کہ امریکا ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے لیے اپنے ’’شیطانی منصوبے‘‘ کو مزید آگے بڑھاتا، حالاں کہ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم ’’OIC‘‘ کو اُس وقت یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ اگر امریکا مقبوضہ بیت المقدس میں سفارت خانہ منتقل کرنے سے باز نہیں آئے گا تو امریکا کے ساتھ سفارتی اور دیگر تعلقات پر نظرثانی کی جائے گی جو مکمل منقطع ہونے کی حد تک جاسکتی ہے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا جس پر امریکا اور اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہوئی جس کے نتیجے میں مذکورہ ’’امن منصوبے‘‘ کے ذریعے ’’بیت المقدس‘‘ پر مستقل قبضے سمیت فلسطین کو اسرائیل کی کالونی بنائے رکھنے کا ’’شیطانی منصوبہ‘‘ پیش کیا گیا۔
صدر ٹرمپ کے حالیہ ’’شیطانی منصوبے‘‘ کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی جواب آنا چاہیے کہ مسلم حکمرانوں اور بادشاہوں نے جو ردعمل دیا ہے کیا وہ کافی ہے، کیا کسی بھی مسلم ملک کے دارالحکومت میں امریکی سفیر کو طلب کرکے کوئی احتجاجی مراسلہ دیا گیا، کیا سرکاری سطح پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے کسی امریکی وفد کی آمد کو روکنے یا یہ کہ اپنے کسی رہنما اور وفد کے دورہ امریکا کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ گو کہ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ اوسلو معاہدہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے، صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا حالیہ ’’امن منصوبہ‘‘ 1993ء کے اوسلو معاہدے کے منافی ہے۔ لہٰذا فلسطینی انتظامیہ خود کو اِس سے آزاد سمجھتی ہے تاہم کوئی دوسرا اسلامی ملک بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے امریکا کے ساتھ اپنے سفارتی اور اسٹرٹیجک تعلقات کو محدود کرنے کے لیے تیار ہے۔ کیا ’’OIC‘‘ اور عرب لیگ ایسا کوئی منصوبہ رکھتے ہیں جس کے ذریعے صدر ٹرپ کے ’’شیطانی منصوبے‘‘ کو کائونٹر کیا جاسکے؟۔ اگر ایسا کچھ نہیں اور واقعی کچھ نہیں ہے تو اِس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ امریکا کو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے شیطانی منصوبے کے لیے مزید پیش قدمی کرنے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے۔
ہم یہاں یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ ’’بیت المقدس‘‘ صرف عربوں کا ہی ’’قبلہ اوّل‘‘ نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کا ’’قبلہ اوّل‘‘ ہے، جب کہ فلسطینی صرف عرب ہی نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کا قابل فخر حصہ ہیں، عرب ممالک اگر ’’قبلہ اوّل‘‘ کی بازیابی سے دستبردار ہوجائیں گے تو بھی عالم اسلام اپنے اس تیسرے حرم سے لاتعلق نہیں ہوگا۔ مسلمان ہر صورت قبلہ اوّل کی بازیابی اور فلسطینیوں کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے جب کہ عرب حکمرانوں اور ان کے امریکی و اسرائیلی دوستوں کے لیے ہمارا پیغام ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں امن کی کنجی وائٹ ہائوس، تل ابیب یا کسی محل کے مکین کے پاس نہیں بلکہ مسجد اقصیٰ کے امام صاحب کے پاس ہے، جب تک فلسطین کا بچہ روتا رہے گا اور مسجد اقصیٰ کا موذن اذان دیتا رہے گا تب تک بیت المقدس قبلہ اوّل اور فلسطین مسلمانوں کا وطن ہی رہے گا۔ علاوہ ازیں صدر ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ’’مسئلہ فلسطین‘‘ کا حل صرف یو این او اور وائٹ ہائوس ہی کے پاس نہیں ہے بلکہ اس حل کے کئی دیگر آپشن بھی موجود ہیں، اگر امریکا اور دیگر عالمی ادارے اپنی ذمے داری پوری نہیں کریں گے تو وہ ’’جہادی قوتیں‘‘ اپنا کام ضرور دکھائیں گی جن کی آنکھوں کو امریکا، افغانستان، ایران، شام اور عراق میں دیکھ چکا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے مذکورہ ’’شیطانی منصوبے‘‘ کے ذریعے عالم اسلام کے خلاف جو شرارت اور سازش کی ہے وہ یہود و نصاریٰ کی تاریخ کے عین مطابق ہے جو وہ ہر دور میں اہل اسلام کے خلاف کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا اب کی بار امریکی صدر نے ’’شیطانی منصوبے‘‘ کا جو کھیل کھیلا ہے بالکل ٹھیک ہی کیا ہے کیوں کہ اس طرح سے ہمیں اپنی صفوں میں امریکی آلہ کار اور ایجنٹ پہچاننے کا موقع مل جائے گا اور امریکا و اسرائیل کے یہ ناپاک عزائم ہی ہمیں اُس راستے پر چلنے کے لیے مجبور کردیں گے جس پر کبھی خالد بن ولید اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے لشکر گزرے تھے۔ ہم امن کے داعی اور مذاکرات کے حامی ہیں تاہم اگر کوئی مذاکرات کی میز چھوڑ کر میدان جنگ کی طرف آنا چاہے گا تو اُسے ضرور خوش آمدید کہا جائے گا۔ بہرحال صدر ٹرمپ نے مشرقی وسطیٰ میں امن کے نام پر ’’شیطانی منصوبہ‘‘ پیش کرکے جہاں اپنے لیے بُرا کیا وہیں پر مسلم حکمرانوں اور جرنیلوں کو بھی اپنے عوام کی نظروں میں بے توقیر اور شرمندہ کردیا ہے۔ لہٰذا بیت المقدس کے سائے میں کھڑے ہونے اور اس پر حملہ آور اسرائیلی فوجوں کا ساتھ دینے والوں کے درمیان جو نشاندہی ہونی چاہیے تھی وہ مذکورہ ’’شیطانی منصوبے‘‘ کے ذریعے کردی گئی ہے جس پر ہم یہ کہیں گے کہ صدر ٹرمپ نے جو کچھ کیا ٹھیک کیا اور اب صدر صاحب مزید ٹھیک ہونے کا انتظار کریں کہ جب ’’شیطانی منصوبے‘‘ کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو اپنے زخم چاٹنے تک کی بھی فرصت نہیں ملے گی۔