قاسم سلیمانی اور دُنیا کے دو بلاک

889

✍ نذر حافی
✍ نذر حافی
ایران کے جوابی حملے کے کیا کہنے! سچی بات تو یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ کسی اسلامی ملک نے امریکا کی طاقت کا طلسم توڑا ہے، جس کے نتیجے میں اب امریکی غرور خاک میں مل چکا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوا ہے جیساکہ اس سے پہلے کئی مواقع پر حزب اللہ نے بھی کیا ہے۔ خصوصا وہ یادیں دوبارہ تازہ ہو گئی ہیں کہ جب 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کو عبرتناک شکست دے کر اس کی ہیبت کے بت کو پاش پاش کر دیا تھا۔
ایران کے جوابی حملے کے بعد ٹرمپ ’’آل اِز ویل‘‘ کے سوا کچھ کہتے ہی نہیں تھے بلکہ ان کے ہم فکر اور ہم خیال ٹولوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ ایرانی میزائل حملوں میں کوئی ایک فوجی بھی نہیں مارا گیا۔ بہر حال پھر ساری دنیا نے ان کے جھوٹ کا پول کھلتے دیکھا اور اب آئے دن ان کا اپنا ہی میڈیا ہلاکتوں، زخمیوں اور نقصانات سے پردہ اٹھاتا چلا جارہا ہے۔
یہ ایسا وقت تھا کہ جب کشمیر و فلسطین سے لے کر مشرق و مغرب میں ساری دنیا قاسم سلیمانی کی شہادت کی وجہ سے غم میں ڈوبی ہوئی تھی لیکن امریکا اور اس کے پالتو صہیونی اورداعشی جشن منا رہے تھے۔ وہ بیٹھ کر قاسم سلیمانی کے خلاف جھوٹی پوسٹیں اور کالم گھڑ رہے تھے۔
امریکیوں کے ہمدردوں نے قاسم سلیمانی کی شہادت کے موقع پر بھی امریکا و اسرائیل کے ساتھ اپنی دوستی کے رشتے کو خوب نبھایا۔جو کچھ اسلام دشمن اور صہیونی میڈیا قاسم سلیمانی کے بارے میں کہتا رہا، وہی کاپی پیسٹ ہوتا رہا اور اسی کو بنیاد بنا کر مضامین اور کالم لکھے جاتے رہے. ہم سب نے قاسم سلیمانی کے جنازے پر یہ دیکھا کہ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی۔ ایک بلاک میں امریکا و اسرائیل اور اس کے حامی جب کہ دوسرے میں سارا عالم انسانیت اور خصوصاً جہانِ اسلام تھا۔ اس شہادت نے سب پر واضح کر دیا ہے کہ کون کس انداز میں امریکا و اسرائیل اور صہیونیوں کی خدمت کر رہا ہے اور کون عالم اسلام اور عالم بشریت کے لیے میدان میں اترا ہوا ہے۔ دونوں بلاکوں کے قلم، دونوں طرف کے صحافی، دونوں طرف کا میڈیا دن رات میدان میں رہا۔ لمحہ بہ لمحہ چہروں سے نقاب اترتے گئے۔ ایک بلاک کے لوگ دوسرے بلاک سے جدا ہوتے گئے اور آخر میں ایک مرتبہ پھر یہ چھانٹی ہوگئی کہ کون کس بلاک میں ہے۔
قاسم سلیمانی کے جنازے پر کھڑے ہو کر ایک طرف فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ نے لاکھوں انسانوں کے اجتماع اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے ببانگ دہل کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نہ صرف ایرانی قوم کے ہیرو ہیں بلکہ وہ فلسطینی مظلوم ملت کے بھی عظیم ہیرو ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں تین مرتبہ یہ کہا کہ قاسم سلیمانی قبلہ اول بیت المقدس کے شہید ہیں، لیکن دوسری طرف مسلسل قاسم سلیمانی پر کیچڑ اچھالا جاتا رہا۔
ہم اربابِ دانش کو بتانا چاہتے ہیں کہ قاسم سلیمانی نے جہانِ اسلام کو اکٹھا اور بیدار کرنے نیز ظالموں کے تسلط سے نجات دلانے کے لیے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بارے میں صہیونی میڈیا اور امریکی حامیوں کے بجائے عراق کے وزیراعظم، عراقی قبائل کے بزرگوں، حزب اللہ لبنان کے سربراہوں اور فلسطین کی آزادی کے علمبرداروں سے پوچھیے اور اگر پوچھنا ہی ہے تو پھر مقبوضہ کشمیر کے ان بہادر شیروں سے پوچھیں کہ جنہیں جیسے ہی قاسم سلیمانی کی شہادت کی خبر ملی تو وہ سخت کرفیو اور برف باری میں اپنی جان پر کھیل کر سڑکوں پر نکل آئے۔
قاسم سلیمانی کی شہادت سے عالم اسلام کو حاصل ہونے والے ثمرات پر کئی تجزیہ نگار روشنی ڈال چکے ہیں لیکن میرے خیال میں اس شہادت کا سب سے بڑا ثمر یہ سامنے آیا ہے کہ دنیا نے اچھی طرح دیکھ اور سمجھ لیا کہ کون کس بلاک میں ہے۔
قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد مخالفین کی پوری کوشش تھی کہ جہانِ اسلام میں مزید تفرقہ پھیلے اور وہ چاہتے تھے کہ ایران اپنا جوابی حملہ سعودی عرب یا کسی دیگر خلیجی ریاست پر کرے لیکن ایرانی قیادت کی بصیرت کو سلام ہو کہ انہوں نے اس نازک وقت میں بھی اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور خطے میں موجود سب سے بڑے اور طاقتورامریکی اڈے کو نشانہ بنایا۔ اس اڈے میں دو ’’رَن وے‘‘ تھے، جن کا رقبہ 4، 4 کلومیٹر سے زائد تھا۔ اس کے علاوہ اس میں 3 مربع کلومیٹر پر محیط ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنےوالی عمارت بھی موجود تھی۔ حملے سے پہلے یہاں پر امریکا کے ڈرون طیاروں کے علاوہ، ایف 16، ہر کولیس سی ون تھرٹی،ایچ ایچ سکٹی طیارے اور ہاک ہیلی کاپٹر بھی موجود تھے۔ حملے سے صرف ایک سال پہلے یعنی دسمبر 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ ملانیا ٹرمپ نے بھی اس اڈے کا اچانک دورہ کیا تھا اور اس کی اہمیت کو سراہا تھا۔ محققین کے لیے یہ سب تفصیلات انٹر نیٹ پر موجود ہے۔
عین الاسد جیسے دُور ترین اور طاقتور اڈے کو نشانہ بنا کر ایرانی قیادت نے عرب ریاستوں کو یہ سمجھا دیا ہے کہ ایران اپنے تمام تراختلافات کے باوجود عرب ریاستوں کے خلاف کسی بہانے کی تلاش میں نہیں ہے۔ یہ امریکا و اسرائیل ہیں کہ جن کی کوشش ہے کہ مسلمان ممالک آپس میں لڑ کر کمزور ہو جائیں اور یوں کسی پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی آغوش میں جا گریں۔
صہیونی اور ان کے آلہ کار پہلے تو مسلمانوں کو عربی و عجمی اور شیعہ و سنی میں تقسیم کر کے کمزور کرتے ہیں اور پھر ان پر حملہ کرکے ان کے ثقافتی مراکز، تمدنی سرمائے اور عبادت گاہوں پر شب خون مارتے ہیں لیکن قاسم سلیمانی کی شہادت کے موقع پر دنیا بھر میں سارے مسلمانوں کی طرف سے ہونے والے احتجاجی جلوسوں ، تعزیتی بیانات، اور غم و غصے کے اظہارنے مشرق و مغرب میں اس حقیقت کو منوا لیا کہ مسلمان آج بھی صدر اسلام کی طرح آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے 52 ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے کر خطے کے امن کے لیے خطرات پیدا کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ بھی امت مسلمہ نے اپنے اتحاد کے ساتھ خاک میں ملا دیا ہے۔ اب ہر عقلمند انسان کے نزدیک اسرائیل یا امریکا اور ٹرمپ یا نیتن یاہو کا لفظ گالی بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پوری دنیا میں یہ شور پیدا ہوچکا ہے کہ امریکا اب اسلامی ممالک سے باہر نکل جائے۔
قاسم سلیمانی کی شہادت کے کچھ ثمرات ابھی تک سامنے آئے ہیں لیکن اس کا حقیقی ثمر سارا عالم اس دن دیکھے گا، جب پوری دنیا سے امریکا و اسرائیل اور اس کے معاونین کا انخلا ہو جائے گا اور مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن کر ایک ہی بلاک میں آجائیں گے۔ تب ساری دوریاں ختم ہو جائیں گی اور ساری دنیاکے مسلمان جسد واحد کی طرح زندگی گزاریں گے۔ کوئی شک نہیں کہ اس میں وقت لگے گا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قاسم سلیمانی جیسے شہدا کا خون اپنی تاثیر ضرور دکھائے گا۔