وہ زمانہ اور تھا یہ زمانہ اور ہے

916

خدیجہ گیلانی

ایک 8 سالہ بچی کے منہ سے یہ جملہ سن کر میں حیران ہو گئی ۔بات کچھ بھی نہیں تھی بہت معمولی سی ۔۔۔ باتوں باتوں میں نہ جانے کیسے سکول کا ذکر آ گیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے سکول میں گھنٹی کیسے بجتی ہے ۔۔ میرے استفسار پر وہ بتانے لگی کہ الیکٹرانک بیل ہے یعنی بٹن دباو اور گھنٹی بج جاتی ہے ۔۔۔۔۔ میں نے اس کو بتایا کہ جب میں سکول جاتی تھی تو لوہے کا ایک گھنٹہ ہوتا تھا جس پر لوہے کے گزر سے ہی ضرب لگائی جاتی تھی تو ٹن ٹن ٹن گھنٹی بجتی تھی اس بات کا جواب جو اس بچی نے دیا ” یہ زمانہ اور ہے وہ زمانہ اور تھا ” اس جواب نے میرے سامنے سوچوں کے کئی در وا کر دئیے ، میرے سامنے کئی سوال کھڑے کر دیئے اور مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔
یہ ایک جملہ نہیں معاشرے میں پنپتی ہوئی اس سوچ کی عکاسی ہے جس کو دانستہ و غیر دانستہ ، جانے اور بغیر جانے گزشتہ دو دہائیوں میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پروان چڑھایا گیا اور ہر مکتب فکر اور ہر طبقے نے ناچاہتے ہوئے بھی اپنا کردار ادا کیا ۔ معاشرے کو ترقی ، جدت ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا لالچ دے کر دھیرے دھیرے ہمیں ہماری اقدار سے دور کیا گیا ۔
ٹیکنالوجی ، جدیدیت اور ترقی کی اس دوڑ میں ہم نے اپنی بہت سی اقدار کو کھو دیا ۔ ہمارے رسم و رواج، ہمارا لباس ، ہمارا انداز نشست و برخاست، ہمارا انداز گفتگو ، ہمارا قیام و طعام پر چیز اس چکا چوند کی لپیٹ میں آئی ۔ معاشرے کا ہر طبقہ بلاتفریق اس چکا چوند سے متاثر ہوا اور المیہ تو یہ ہوا کہ معاشرے کا دین پسند اور اپنی اقدار سے جڑ کر رہنے والا طبقہ بھی اس سیلاب کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہا۔
کسی بھی معاشرے کا متوسط طبقہ ( مڈل کلاس ) اس معاشرے کی اقدار و روایات کی پاسداری کرتا اور بقا کا ضامن ہوتا ہے لیکن حادثہ تو یہ ہوا کہ اس مرتبہ نظریاتی دشمن کا ہدف یہی طبقہ ٹھہرا ۔
رسم ورواج پر ہندوانہ رنگ کا غلبہ تو تقسیم ہند سے پہلے کے مخلوط معاشرے کا تحفہ تھا ہی جس سے پیچھا چھڑانا ہی مشکل تھا کہ دنیا کے گلوبل ویلیج بننے کے باعث ہر طرح کی غیر اخلاقی حرکتیں ہمارے سماج کا حصہ بنیں ۔ برائیڈل شاور ، ویلنٹائن ڈے ( جو بے حیائی کا ایک سیلاب لے کر آیا ) مختلف دن منانے کا تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان اسی کے مظہر ہیں ۔
مخلوط محفلیں عام ہوئین ۔۔۔۔۔۔ گھر اور باہر ، خاندان کی چھوٹی بڑی تقریبات سے لے کر بڑے بڑے اجتماع ، تعلیمی ادارے اور دفاتر بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہے ۔ نہ کوئی روکنے والا نہ کوئی ٹوکنے والا اور جس نے ذرا صدائے احتجاج بلند کی وہ ٹھہرا دقیانوسی ۔۔۔۔۔
لباس میں تیزی سے آنے والا تغیر کہ جس پر دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔ چھوٹی قمیص بڑی قمیض کی بحث تو ہم کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئے ۔۔۔۔۔ اب تو جرسی کے چست پاجامے جو جسم کے ساتھ چمٹ کر خدوخال کو اس حد تک نمایاں کرتے ہیں کہ کوئی زاویہ چھپا نہ رہ جائے ۔۔۔ آگے اور پیچھے سے یکساں گہرائی لئے گلے کی چست قمیص اور دوپٹہ ندارد ، چاک وہاں تک کھلے کہ بس بغل جھانکنے کی کسر رہ جائے اور آستینوں پر لگے کٹ جو صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں ۔۔۔ ہر عمر کی خواتین کا یہی پسندیدہ اور ایزی ٹو وئیر لباس بن گیا ۔
خواتین تو خواتین مردانہ ملبوسات میں ایسا تغیر و تبدل رونما ہوا ہے کہ
حیران ہوں دل کو رووں کہ پیٹوں جگر کو میں
تیز اور گہرے رنگوں کے ریشمی ملبوسات اور ان پر بنے زرق برق پھول بوٹے ۔۔۔۔ سونے پر سہاگہ جو دوپٹہ خواتین نے اتار پھینکا وہ مردوں کے شانوں پر سج گیا ۔
اور سب تو اپنی جگہ ہماری تو زبان بھی اپنی نہ رہی ۔۔۔۔ ہائے وائے عام گفتگو کا حصہ بنے ۔۔۔ منہ ٹیڑھا کر کےہندی کی ملاوٹ لئے انگریزی نما اردو بولتے بچے اور والدین کا احساس کمتری میں لپٹا ہوا فخر کہ ہمارے بچے کو تو اردو آتی نہیں ۔
انداز گفتگو ایسا بدلا کہ بڑے چھوٹے کی تمیز ختم ہوئی ۔ ہر بڑے چھوٹے خاص و عام کو جواب دینا بولڈ نیس قرار پایا ۔ جنریشن گیپ کو ختم کرنے کے نام پر والدین اور اساتذہ کا لحاظ جاتا رہا ۔۔۔۔ خود اعتمادی کے نام پر بے محابا آزادی کو فروغ ملا ۔۔۔۔ گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ کی اصطلاحیں عام ہوئیں ( اس لئے کہ گرل فرینڈ، نوائے فرینڈ بنانا بھی عام ہو گیا ۔ بے حیائی اور بے شرمی کی گفتگو سر عام ہونے لگی ۔ بزرگوں کا ادب تو قصہ پارینہ ہوا ۔۔۔ غرض کس کس چیز کو روئیں ہمارے تو دسترخوان پر چنے ہوئے کھانے تکے اپنے نہ رہے ۔۔ پلاو ، کباب ، قورمہ اور بریانی کی جگہ ہماری نئی نسل پزا، برگر ، نوڈلز اور میکرونی کی شیدائی بن گئی ۔
آہستہ آہستہ رونما ہونے والی یہ تبدیلی دو چار دن کی بات نہیں بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں نے ہمارے نظام معاشرت کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
مروت ، لحاظ اور رواداری جیسی خوبصورت قدریں قصہ پارینہ ہوئیں اور ان کی جگہ مقابلے کی دوڑ نے لے لی
تیری دیوار سے اونچی میری دیوار بنے
کی سوچ نے معاشرے کو مادیت پرستی اور اخلاقی پستی کی دلدل میں دھکیل دیا اور
جو تھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
نظریاتی دشمن نے اس مرتبہ ہدف بنایا ہمارے متوسط طبقے ( مڈل کلاس ) کو جو کسی بھی معاشرے کی اقدار و روایات کی پاسداری کرتا اور بقا کا ضامن ہوتا ہے لیکن اب کی بار یہ سیلاب بہت کچھ روندا ہوا ہمارے گھروں میں در آیا اور ہم اپنا دامن نہ بچا پائے ۔۔۔۔ ہم ایک ایسی پوری نسل پروان چڑھا چکے جو ہر بات کے جواب میں کندھے آچکا کر ‘ سو واٹ ‘ اور ‘ ڈیم کئیر ‘ بولتی ہے اور جن کے نزدیک زندگی گزارنے کے لئے کوئی اصول و ضوابط ضروری نہیں بلکہ زندگی محض ‘ انجوائے منٹ ‘ کا نام ہے ۔
شخصی آزادی کی علمبردار یہ نسل مذہب کو بھی اپنا ذاتی مسئلہ قرار دیتی ہے اور ہم ان کے سامنے ہاتھ باندھے بے زبان کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔ ہم بہت تیزی سے اپنی شناخت کھو رہے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس تک نہیں ۔
آج کے اس دور پرفتن میں جو افراد اور گھرانے اپنی اسلامی شناخت کو اپنائے ہوئے ہیں اور اپنی قابل فخر معاشرتی اقدار سے جڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ یقیننا جہاد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ خاندان برادری سے تعلق ہو یا تعلیمی اداروں کا انتخاب ، شادی بیاہ کے مسائل ہوں یا عام میل جول کے تعلقات پر قدم پر مسائل اور مشکلات سے نبرد آزما
تنگ نظر ، دقیانوسی اور شدت پسند جیسے القابات اور خطابات سے نوازے جانے والے اور معاشرے میں اجنبی بن کر رہ جانے والے یہ لوگ یقیننا داد کے مستحق ہیں ۔
ہم نے بہت کچھ گنوا دیا ہے لیکن اے کاش ! ہم بچے کھچے اثاثے کو سنبھال سکیں ۔ آمین