ملوکیت کی جنت مردہ باد‘ جمہوریت کی دوزخ زندہ باد (آخری حصہ)

694

بسا اوقات بادشاہ اہل نہیں ہوتا تھا تو نظام میں اس کو بہترین مشیر مہیا کرنے کی صلاحیت ہوتی تھی۔ اس کی نمائندہ مثال اکبر ہے۔ اکبر کا باپ ہمایوں اکبر کی پیدائش کے وقت سیاسی اتھل پتھل کا شکار تھا۔ چناں چہ اکبر کی تعلیم و تربیت کا مناسب بندوبست نہ ہوسکا۔ اس خلا کو اکبر نے بہترین مشیروں کے ذریعے پُر کیا اور پچاس سال تک حکومت کی۔
اس کے برعکس جمہوریت قیادت کا جو معیار پیش کررہی ہے وہ ہماری سامنے ہے۔ ایک وقت تھا کہ جدید بھارت کی قیادت گاندھی اور نہرو جیسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی اور آج بھارت کی قیادت مودی جیسے شخص کے ہاتھ میں ہے۔ خود کانگریس میں قیادت کا معیار مسلسل گرا ہے۔ ایک وقت تھا کہ نہرو گاندھی کے رہنما تھے۔ ان کی جگہ اندرا گاندھی نے لی۔ اندرا گاندھی سے ایک بار انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آپ میں اور ان کے والد نہرو میں کیا فرق ہے۔ اندرا گاندھی نے کہا کہ میرے والد ’’خواب دیکھنے والے‘‘ تھے مگر میں ’’حقیقت پسند ہوں‘‘ اندرا گاندھی منظر سے ہٹیں تو ان کی جگہ ان کے بیٹے راجیو گاندھی نے لے لی۔ راجیو کا کوئی سیاسی پس منظر ہی نہیں تھا وہ صرف ایک ثالث تھے مگر اس کے باوجود وہ کانگریس کے قائد اور ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ آج کانگریس کی قیادت عملاً راہول گاندھی کے ہاتھ میں ہے۔ ان کا ذہنی سانچہ راجیو سے بھی زیادہ غیر معیاری ہے۔ ایک وقت تھا کہ برطانیہ کا وزیراعظم چرچل جیسا ’’مدبر‘‘ تھا اور آج برطانیہ کا وزیراعظم بورس جانسن جیسا ’’مسخرہ‘‘ ہے۔ جارج واشنگٹن اور ابراہم لنکن کے امریکا پر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمرانی ہے۔ جمہوری نظام کو پرانا اور پختہ ہونے کی وجہ سے زیادہ بہتر قیادت مہیا کرنی چاہیے تھی مگر وہ پوری دنیا میں جمہوری قیادت کا معیار گرتا چلا جارہا ہے۔
مغربی دنیا کے دانش وروں نے گزشتہ ایک صدی کے دوران اس تاثر کو قوی کیا کہ صرف جمہوریت ہی معاشی اور سائنسی ترقی کی ضمانت مہیا کرتی ہے۔ مگر چین نے ’’آمرانہ نظام‘‘ میں حیرت انگیز معاشی اور سائنسی ترقی کرکے اس خیال کے پرخچے اُڑا دیے ہیں بلکہ دیکھا جائے تو چین کا تجربہ امریکا اور یورپ کے تجربے سے زیادہ ’’کامیاب‘‘ ہے۔ اس لیے کہ یورپ نے جو ترقی ڈیڑھ سو سال میں کی چین نے وہ ترقی چالیس سال میں کرکے دکھا دی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر معاشی اور سائنسی ترقی ہی سب کچھ ہے تو چین کی ’’آمریت‘‘ مغرب کی ’’جمہوریت‘‘ سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہے۔ مسلم دنیا کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ مسلمانوں نے بھی جدید علوم و فنون میں اس وقت ترقی کی جب ہر طرف ’’ملوکیت‘‘ کا ’’راج‘‘ تھا۔ مگر ان حقائق کے باوجود یاسر پیرزادہ اور ان جیسے ’’Democrates‘‘ کے لیے جمہوریت کا ’’جہنم‘‘ ملوکیت کی ’’جنت‘‘ سے بہتر ہے۔
بدقسمتی سے دنیا بالخصوص مسلم دنیا میں جمہوریت ’’بادشاہت‘‘ کے ایک نئے نام کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال نے خوامخواہ نہیں کہا:
تو نے کیا دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
یعنی یورپ کی جمہوریت صرف ’’لیبل‘‘ کی حد تک جمہوریت ہے ورنہ وہاں آج بھی بادشاہت ہی کا راج ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی جمہوریت ’’سرمائے کی جمہوریت‘‘ ہے۔ ’’طبقہ امرا‘‘ کی جمہوریت ہے۔ ’’سی آئی اے کی جمہوریت‘‘ ہے، پاکستان کی جمہوریت، امریکا کی جمہوریت ہے، ’’اسٹیبلشمنٹ کی جمہوریت‘‘ ہے، ’’جاگیرداروں کی جمہوریت‘‘ ہے، ’’Electables‘‘ کی جمہوریت ہے، ’’پنجابیت‘‘ کی جمہوریت ہے، ’’مہاجریت‘‘ کی جمہوریت ہے، ’’سندھیت‘‘ کی جمہوریت ہے، ’’پشتونیت اور بلوچیت‘‘ کی جمہوریت ہے، ’’مسلک‘‘ کی جمہوریت ہے، ’’فرقے‘‘ کی جمہوریت ہے۔ اس کے باوجود جمہوریت کا ’’جہنم‘‘ ملوکیت کی ’’جنت‘‘ سے بہتر ہے۔
یاسر پیرزادہ نے یہ بات بھی خوب کہی کہ حیدر آباد دکن کے حکمران نے تقسیم برصغیر کے وقت اس بات کے لیے عوام سے رجوع نہ کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ۔ یاسر پیرزادہ کو اتنی سی بات کا فہم نہیں کہ تقسیم برصغیر کے وقت کا ہندوستان ’’ہندو مسلم نفسیات‘‘ کے زیر اثر تھا۔ حیدر آباد دکن کی آبادی کی اکثریت ہندوئوں پر مشتمل تھی۔ چناں چہ ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ ہندو نفسیات کو پھلانگ کر محض اس لیے پاکستان میں شامل ہونا پسند کریں گے کہ ان کا مسلم رہنما ’’بے مثال‘‘ ہے اور وہ ہندوستان کے بجائے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کرچکا ہے۔