وزیراعظم عمران خان کے قول و فعل کا تضاد

370

کبھی آئی ایم ایف کے در پر جانے سے بہتر خودکشی کرلینا ہوتا تھا۔ تو پھر کبھی آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر گزارہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا، لیکن سب سے بڑا دھچکا عوام کو اس وقت لگا جب پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست جس کا تصور ہی نبیؐ آخر الزماں سے جڑا ہوا ہے بنانے کا دعویدار نبیؐ کے دشمنوں میں سے اپنا مشیر چنتا ہے، اُن کے مفاد میں کرتارپور کا بارڈر کھول دیتا ہے، اس کے قادیانیوں کے ساتھ روابط کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ بھلا یہ کون نہیں جانتا کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برٹش امپائر کے ایما پر جذبہ جہاد کو سرد کرنے کے لیے فتنہ قادیانیت کا بھیج بویا گیا اور ان کی گھریلو شریعت نے مسلمانوں کو کیسے کیسے کاری زخم لگائے۔ صد شکر ہے کہ علما کرام کی مذہبی حمیت و علمی جدوجہد اور عوام الناس کی مذہب دوستی اور عشقِ نبیؐ نے اُنہیں پاکستان میں ہمیشہ منہ کی کھانے پر مجبور کیا اور 1970ء میں ملک کی بیشتر مذہبی جماعتوں کی بھرپور مزاحمت نے انہیں کفر کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ افسوس صد افسوس کہ ملکی اشرافیہ کی محلاتی سازشوں و سرگوشیوں کے سبب مشرف دور میں جہاں بہت سی اسلام دشمن سرگرمیوں کی بنیاد پڑی اور کھل کر اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا گیا وہیں ان قادیانیوں کو ملک میں سرگرم ہونے کا موقع بھی دیا گیا۔ پھر مشرف کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی زندلقیوں سے کوئی تعرض نہ برتا۔ اور آج وزیراعظم عمران خان انہیں کھلم کھلا مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ عطا کررہے ہیں۔ میرا ارباب عقل و دانش سے یہ سوال ہے کہ ایک ایسا فرد جس کے خیال میں نبیؐ آخر الزماں کو آخری نبی نہ ماننے والا اور نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا اور اس کے پیروکاروں کو کافر کے بجائے مسلمان گرداننے والا شخص درست ہو اس بات کا اہل ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم رہ سکے؟۔ مدینہ کی طرز کی ریاست کے قیام کے بلند و بانگ دعوے کرکے عوام کو دھوکا دینے والے کے تمام دھوکے ایک طرف لیکن نبیؐ کی دشمن قوتوں کی طرفداری اور ہینود و یہود اور قادیانیوں کے لیے دل میں نرم گوشہ ایک طرف کیا ایسا بد عہد شخص اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم رہ سکتا ہے؟۔
صبیحہ اقبال