ریلوے کے کرپٹ نظام پر عدالت عظمیٰ برہم

663

محمد اکرم خالد
گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کی جانب سے ریلوے خسارہ کیس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے فرمایا کہ ریلوے سے کرپٹ کوئی ادارہ نہیں ریلوے کا نظام ناکارہ ہو چکا ہے مسافر خطرے میں سفر کرنے پر مجبور ہیں ریلوے کے نظام میں کوئی چیز درست نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے نام لیے بغیر کہا کہ ریلوے والا روز حکومت گراتا اور بناتا ہے اپنی وزارت سنبھالی نہیں جارہی تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ رپورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ ریلوے کو اربوں روپے کا خسارہ ہورہا ہے ریلوے کا نظام چل ہی نہیں رہا آج بھی پاکستان میں اٹھارویں صدی کی ریل چلائی جارہی ہے جبکہ دنیا بلٹ ٹرین چلا کر آگے جار ہی ہے۔ چیف جسٹس نے ٹرین میں لگنے والی آگ جس میں ۷۴ سے زائد انسانی جانوں کا ضیاع ہوا پر بھی سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے اور افسران کو طلب کیا ہے۔
یقینا چیف جسٹس نے ریلوے کے بوسیدہ نظام پر حکمرانوں اور خاص کر وزیر ریلوے شیخ رشید کو جو آئینہ دکھانے کی کوشش کی وہ درست تھا، وزیر ریلوے کے لیے شرم کا مقام تھا کہ ایک حادثے میں ۷۴ سے زا ئد ہلاکتوں کے بعد بھی کئی چھوٹے حادثات رونما ہور ہے ہیں مگر وزیر ریلوے شیخ رشید بڑی ڈھٹائی سے آج بھی اپنی وزارت پر براجمان ہیں اور ان کو انسانی ہلاکتوں پر کوئی پشیمانی نہیں ہے ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ وزیر ریلوے جن کو خان صاحب نے ذاتی انا کی خاطر ایک سیٹ پر اس ملک کی اہم ترین وزارت سے نوازا ہے محترم وزیر اپنی وزارت سے ہٹ کر ہر روز نجومیوں کی طرح خان صاحب کی حکومت کو مستحکم رکھنے کی نوید سناتے نظر آتے ہیں۔ کون گرفتار ہونے والا ہے کون حکومت میں شامل ہونا والا ہے میاں صاحب کیا کرنے والے ہیں۔ ادارے کس کے ساتھ کھڑے ہیں کیا کرنے والے ہیں یہ سب خبریں رکھتے ہیں مگر ان سے اگر ریلوے نظام کی بہتری اور ان کی اپنی کار کردگی پر سوال کیا جائے تو یہ بھی ماضی کا حوالہ دے کر بات کو اپوزیشن کے گول میں ڈال دیتے ہیں ان کے اس رویے سے ریلوے نظام میں بہتری کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
حکومت کوئی بھی ہو ہر ایک نے پاکستان کے اس قیمتی اثاثے کو نقصان پہنچانے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی۔ ریلوے جو پاکستان کی معیشت اور دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھتی ہے اس قیمتی اثاثے کو ہر دور میں کمزور کیا گیا ہے ہر حکومت نے اپنی سیاسی دوکانوں کو چمکانے کے لیے نئی نئی ٹرنیں چلانے پر زور دیا مگر انگریزوں کے دور سے ڈالے گئے ریلوے ٹریک اور سگنلز کی تبدیلی پر آج تک کسی نے کام کرنے کی زحمت نہیں کی جس کی وجہ سے ہر دور میں ریلوے حادثات قیمتی انسانی زندگیوں کے خاتمے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن کا حال دیکھیں تو شرم محسوس ہوتی ہے ماضی میں چلنے والی میٹرو بس کے اسٹیشن دیکھ کر دبئی کا نظارہ محسوس ہوتا ہے جبکہ برسوں سے ہم جس ریلوے نظام کی بنیاد پر اپنے ملک کی معیشت کو چلا رہے ہیں اس کے اسٹیشن خستہ حالی کا منظر پیش کر رہے ہیں جس کو جدید طرز پر بنانے کی کسی نے کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ بلیک ٹکٹ کی خریدو فروخت کا نظام جو کھلی کرپشن ہے آج بھی زور وشور سے جاری ہے۔ ان گاڑیوں کو چلانے والے ڈیزل کی غیر قانونی فروخت کو بھی نظر اندازہ نہیں کیا جاسکتا، محکمہ ریلوے کی زمین جہاں خانہ بدوشوں کی پناہ گاہیں۔ منشیات فروشی اور جسم فروشی کے اڈاے بھی قائم ہیں جس میں محکمہ ریلوے کے اعلیٰ افسران، ریلوے پولیس ملوث ہیں جو بغیر کسی سیاسی پشت پناہی کے ناممکن ہے۔ محکمہ ریلوے کے ہر شعبے میں کرپشن کرنے والی کالی بھیڑے موجود ہیں جو اس قیمتی اثاثے کو برسوں سے نقصان پہنچا رہی ہیں جس کی وجہ سے یہ محکمہ کبھی ترقی کی جانب گامزن نہیں ہوسکا۔چند دن پہلے محکمہ ریلوے میں قرعہ اندازی کے ذریعے نوکریاں تقسیم کی گئی ہیں جس کی مثال اس سے پہلے پرانے پاکستان میں نہیں ملتی۔ البتہ نئے پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس نے یہ بعد واضح کر دی ہے کہ ریلوے کے نظام کو ہر دور میں بھیڑیوں کی طرح نوچہ کر کھایا گیا ہے ہر ایک نے اس قیمتی اثاثے کی بنیادوں کو کو کھلا کر کے اپنے ناجائز قیمتی اثاثے بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جہاں سیاسی بنیادوں پر کمزور کیا گیا وہاں اس ادارے کو افسران اور ملازمین نے بھی خوب نقصان پہنچایا۔ یہ قوم چیف جسٹس گلزار احمد سے اپیل کرتی ہے کہ خدارا پاکستان کے اس قیمتی منافع بخش اثاثے اور اس ملک کے دفاعی محاذ پر اہم ترین کردار ادا کرنے والے اس ریلوے کے ادارے کو کرپٹ نااہل نالائق افراد سے پاک کیا جائے ریلوے کے اس قیمتی اثاثے کو کرپٹ نااہل سیاستدانوں نااہل افسران سے بھی پاک کیا جائے۔سفر محفوظ ترین بنانے کے لیے اس ادارے میں بہتر موثر اصلاحات کی جائیں، سیاسی نمائش کے لیے نئی نئی ٹرین چلانے پر اُس وقت تک پابندی عائد کی جائے جب تک ریلوے ٹریک سگنلز اور معیار ی اسٹیشن پر کام مکمل نہیں کیا جاتا، ٹرین حادثات کے ذمے دار یقینا افسران اور ملازمین ہوسکتے ہیں مگر ان حادثات کے سب سے بڑے ذمے دار حکمران ہیں جو اس قیمتی اثاثے کو کمزور کرنے میں ہمیشہ ملوث رہے ہیں ان کی غیر سنجیدگی نے اس ملک کے اداروں کو سیاسی بنیادوں پر ہمیشہ کمزور کیا ہے جس کی اب روک تھام ہونا اس ملک و قوم کے لیے بہت ضروری ہے۔