کمزور فیصلوں کے نتائج

446

ایسا پہلی بار نہیں بلکہ بیسوں مرتبہ زندگی میں اس عمل اور مشاہدے سے واسطہ پڑا کہ ورک شاپ کے ایک چھوٹے نے جب کسی گاڑی کا انجن کھولا تو بند کرتے ہوئے ایک نٹ اس کے ہاتھ ہی میں رہ گیا ہو‘ ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب کوئی اناڑی ہو یا کوئی کسی ایسے کمزور مشورے پر عمل کرے اور انجن کھلوانے کے لیے ایسی ورک شاپ میں چلا جائے جہاں ایسے چھوٹے کام کر رہے ہوں اگر ہم یہی صورت حال سیاسی جماعتوں‘ تنظیموں‘ ایسوسی ایشنوں میں تلاش کرنا شروع کریں تو ہمیں بے شمار مثالیں مل جائیں گی کہ کسی بھی لیڈر نے جب بھی تنہا فیصلے کیے یا کمزور مشورے پر عمل کیا اور ساری تنظیم کا انجن کھل جانے کے بعد ایک نٹ مشورہ دینے والے کسی چھوٹے کے ہاتھ میں ہی رہ جاتا ہے۔ کام کوئی بھی ہو‘ اسے کسی ضابطے اور وسیع البنیاد مشورے کے ساتھ ہی کیا جائے تو اس کام کے لیے کی جانے والی ساری محنت حاسدین کے حسد سے بھی محفوظ رہتی ہے اور شیطان سے بھی بچی رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی رحمت اس میں شامل حال رہتی ہے لیکن کیا کیا جائے جب فیصلے ہی چھوٹے چھوٹے مفادات کے تحفظ کے لیے کیے جائیں اور ایک دوسرے سے بچ بچاکر عہدے حاصل کرنے اور اپنی برتری ثابت کرنے کی جدوجہد کی جاتی رہے تو پھر یقینا نتائج بھی ایسے ہی ملتے ہیں کہ سارا انجن بند کرکے بھی ایک نٹ چھوٹے کے ہاتھ میں ہی رہ جاتا ہے۔
کسی زمانے میں ہاکی میں ہم پوری دنیا پر راج کیا کرتے تھے‘ عالمی کپ‘ چمپئن ٹرافی‘ ایشیاکپ‘ اولمپک سمیت ہاکی کا ہر عالمی اعزاز ہمارے پاس تھا‘ تب سلیکشن بھی میرٹ پر ہوتی تھی اور ہماری ہاکی ٹیم ہر وقت دنیا کے لیے خطرہ بنی رہتی تھی‘ حالت یہ تھی کہ مخالف ٹیم کے چار چار کھلاڑی ہمارے ایک کھلاڑی کو قابو کرنے میں لگے رہتے تھے‘ یہ طریقہ سب سے پہلے مغرب نے اپنایا تھا کہ پورے میچ میں مخالف ٹیم کے کسی اچھے کھلاڑی کو چلنے نہ دیا جائے‘ ہمارے صلاح الدین‘ سمیع اللہ‘ حسن سردار‘ شہباز سینئر جیسے مایہ ناز کھلاڑی ہر میچ میںہمیشہ مارک کیے جاتے رہے۔ مغرب کا یہ طریقہ کسی حد تک کامیاب بھی رہتا ہم چونکہ نقالی کرتے ہیں لہٰذا ہم نے یہ طریقہ اپنے ملک میں بھی لاگو کردیا ہے اب یہ طریقہ ہماری سیاسی جماعتوں‘ تنظیموں اور تمام ایسوسی ایشنوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جہاں ہر کوئی انفرادی کھیل کھیل رہا ہوتا ہے جب بھی فیصلے تنہاء کیے جائیں گے‘ آنکھ بچا کر کیے جائیں گے اور کسی کو دبائو میں لانے کے لیے کیے جائیں گے تو نتائج بھی یہی ملیں گے کہ انجن بند کرنے کے بعد ہمیشہ ایک نٹ ہاتھ ہی میں رہ جائے گا… اس صورت حال سے نکلنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ باہمی مشاورت کا عمل مضبوط کیا جائے‘ جس کام میں مشاورت ہوگی اس میں برکت بھی ہوگی۔
ہم پنجاب‘ کے پی کے اور دوسرے صوبوں کے سیاسی حالات اور فیصلوں پر بحث نہیں کرتے‘ تاہم تجزیہ کرتے ہوئے انہیں ضرور نظر میں رکھنا ہوگا ہمیں علم ہے کہ حکومت بحران میں ہے ہمیں یہ بھی علم ہے کہ وہ اس بحران سے باہر نکل جائے گی ہوسکتا ہے موجودہ بحران عثمان بزدار کو پہلے سے زیادہ مضبوط کردے۔ وہ آہستہ آہستہ بحرانوں سے نکلنا سیکھ رہے ہیں، ان کا اعتماد اب سو گنا زیادہ ہے سب کہہ رہے ہیں کہ پنجاب میں آدھے سے زیادہ بحران گڈ گورننس کا ہے اگر وزیر اعلیٰ سب کچھ چھوڑ کے وسیع البنیاد مشاورت کا عمل اپنائیں اور اس جانب توجہ دیں تو ان پر سے بہت سا دباؤ ختم ہوسکتا ہے وزیر اعلیٰ کو مشاورت کے ساتھ ایک فعال تگڑا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدارکا پہلا مسئلہ بیورو کریسی ہے پنجاب میں بعض سرکردہ شخصیات بھی جوڑتوڑ میں مصروف ہیں اس کی بہت سی وجوہات ہیں خود پی ٹی آئی کے لوگ معترف ہیں کہ جاگیردارانہ مزاج لوگ جو پی ٹی آئی میں شامل توہیں مگر اصلاحات پر کام کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمارے ملک کی تمام تر سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت و اختیار کے حصول کے لیے رسہ کشی نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا‘ ہوتا یہی ہے کہ جب بھی مشاورت کا عمل محدود ہوا‘ مسائل وہیں پیدا ہوجاتے ہیں‘ لہٰذا نتیجہ یہی رہتا ہے کہ چھوٹا انجن کھول تو لیتا ہے مگر بند کرتے ہوئے ایک نٹ اس کے ہاتھ میں رہ جاتا ہے۔ عثمان بزدار اپوزیشن کے لیے سافٹ ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں انہیں اپنی پارٹی میں موجود طاقتور جاگیرداروں کی اندرونی سازشوں کا بھی سامنا ہے ان کی کابینہ میں جنگجو قسم کے وزیر بھی ہیں پنجاب میں آدھے سے زیادہ بحران گڈ گورننس کا ہے ٹیم ورک کے ساتھ اچھی امیج بلڈنگ کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کی تمام تر سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت و اختیار کے حصول کے لیے رسہ کشی نے منتخب نمائندوں کو کام کرنے اور کارکردگی دکھانے کا موقع کم ہی دیا انہیں بھی چاہیے کہ فیصلے وسیع البنیاد مشاورت سے کریں۔