کرپشن کو فروغ، جمہوریت کو زوال

552

حکمرانوں نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ مسترد کردی۔ انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کیونکہ یہ ان کے دعوئوں اور وعدوں کے برعکس ہے۔ رپورٹ صرف مسترد ہی نہیں کی گئی بلکہ اس میں بھی حزب اختلاف کی سازش تلاش کرلی گئی۔ ایک بڑ بولے وزیر کا کہنا تو یہ ہے کہ اس رپورٹ کی ردی میں پکوڑے والا پکوڑے بیچے گا۔ عمرانی حکومت نے رپورٹ کو متعصبانہ اور گمراہ کن قرار دے دیا ہے جب کہ خود پاکستان تحریک انصاف کے کئی وزراء اور رہنما اپنی پارٹی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر بدعنوانی کے الزامات عاید کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کے موقف کے برعکس زمینی حقائق ہیں جن سے مقتدر طبقہ نہ سہی، عوام ضرور واقف ہیں کہ وہ کرپشن کے براہ راست متاثرین میں سے ہیں۔ رشوت کے نرخ بڑھ جانے پر ایک سرکاری بقراط فرماتے ہیں کہ چونکہ بدعنوان عناصر کے خلاف حکومت کا شکنجہ سخت ہو گیا ہے۔ اس لیے رشوت کا ریٹ بھی بڑھ گیا ہے۔ واہ کیا دلیل ہے! اسی کے ساتھ برطانوی جریدے اکنامسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان میں ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں جمہوریت کو زوال آیا ہے اور پاکستان میں جمہوریت کی صورتحال کو کمبوڈیا، ایتھوپیا، گمبیا، بھوٹان، کینیا، نائجیریا، کرغیزستان اور نیپال کے مماثل قرار دیا ہے۔ شہری آزادیاں اور اظہار رائے کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کو ریاست کی طرف سے خطرات لاحق ہیں۔ ظاہر ہے کہ حکمران طبقہ اس رپورٹ کا بھی انکار کر دے گا لیکن کچھ دیر کے لیے یہ سوچ لیا جائے کہ اگر ان رپورٹوں میں کچھ بھی حقیقت ہے تو بہتری کی تدابیر کی جائیں۔ 2019ء کا پورا سال تو بڑے بڑے دعوئوں اور دوسروں کو ڈاکو، چور، لٹیرا اور بدعنوان قرار دینے میں گزر گیا اب یہ راگ بند کرکے کچھ مثبت کام پر توجہ دے لی جائے تو شاید 5 سال عوام کے بھی سکون سے گزر جائیں۔ مہنگائی کا رونا اپنی جگہ لیکن روزگار دینے کے بجائے لوگوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے۔ سیاحت کو فروغ دینے پر زور دیا جا رہا ہے جو ایک اچھی بات ہے لیکن پاکستان ٹوورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن سے 400 ملازمین کی چھانٹی کے لیے فہرستیں تیار ہیں اور اس چھانٹی کو سیاحت کے بہترین مفاد میں قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک معمولی سی مثال ہے ورنہ تو ہزاروں افراد سے روزگار چھین لیا گیا ہے اور دعوے یہ تھے کہ اتنا روزگار ملے گا کہ لوگ کم پڑ جائیں گے، باہر سے لوگ آکر کام کریں گے۔ یہاں تو لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ عمران خان کی ترجمان فردوس عاشق اعوان فرماتی ہیں کہ 2020ء معاشی استحکام کا سال ہے اور اس کے اثرات عوام تک پہنچیں گے، 2020ء کا آغاز ہی آٹے، چینی کی قیمت میں بے تحاشا اضافے سے ہوا ہے اور اس کی بنیاد میں بھی کرپشن ہے۔