ذیابیطس کے بارے میں غلط فہمیاں

1576

عبدالولی خان
کینسر کا نام آتے ہی جھرجھری آجاتی ہے ، فوراً دل سے دعا نکلتی ہے اللہ کسی کو اس مرض میں مبتلا نہ کرے ، ایڈز بھی خدا کی پناہ ، اس کا تو علاج ہی دریافت نہیں ہوا اس میں مبتلا انسان سسک سسک کر آخر کار موت کے منہ میں چلا جاتا ہے لیکن حیران اور پریشان ہونے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان خطرناک امراض سے ہونے والی اموات مل کر بھی ذیابیطس کی وجہ سے مرنے والوں سے کم ہوتی ہے ۔ ذیابیطس ٹائپ ٹو میں مبتلا افراد کی بڑی تعداد کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں اور اس لا علمی کے دوران ہی کئی برس گزار دیتے ہیں ۔ اب اگر بار بر واش روم جانے کی ضرورت پڑے ،اسی وجہ سے راتوں کو بھی اٹھنا پڑے ، شدید پیاس لگنے لگے،تھکن میں اضافہ ہو ، نظر دھندلی ہو تو وقت ضائع نہ کریں اپنے فیملی ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور اپنا ذیابیطس کا ٹیسٹ کرا لیں ۔
اب ذرا بات کر لیں ان غلط فہمیوں کی جو اس خطرناک مرض کے حوالے سے معاشرے میں پائی جاتی ہیں ، ٹوٹکا ہو یا دیسی علاج ، اگر مسلسل مانیٹرنگ کرتے رہیں گے تو اس مرض کی پیچیدگیوں سے خود کو بچانا ممکن ہے ۔ درج ذیل غلط فہمیوں نے ذیابیطس کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں از خود جگہ بنا لی ہے ۔
ذیابیطس خطرناک مرض نہیں:ذیابیطس کے مرض میں مبتلا افراد اور ان کے متعلقین اکثر و بیشتر اس خام خیالی میں رہتے ہیں کہ یہ مرض سنگین نوعیت کا نہیں اور یہی وہ غلطی ہے جو اس مرض میں مبتلا افراد اس مرض سے منسلک دیگر پیچیدگیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، اپنے معالج کے پاس مسلسل جاتے ہیں ، ادویات با قاعدگی سے لیں، کھانے پینے میں احتیاط برتیں اور سب سے بڑ ھ کر یہ کہ اپنے خون میں شکر کی مقدار مانیٹر کرتے رہیں ۔
ذیابیطس میٹھا کھانا ذیابیطس کا باعث بنتا ہے ، ٹائپ ون ذیابیطس کی سب سے بڑی وجہ والدین کی جانب سے یہ بیماری وراثت میں ملنا ہے ۔جبکہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کی وجہ کھانے نہیں بلکہ زیادہ کیلیوریز والی غذائیں ہیں جن کی وجہ سے وزن میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ذیابیطس کا سبب بنتا ہے لیکن یہ بی کوئی حتمی بات نہیں کیوں کہ متناسب جسمانی ساخت کے افراد بھی ذیابیطس میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، بہر حال یہ بات تو طے ہے کہ ذیابیطس(شوگر) میٹھی اشیا ء کھانے کی وجہ سے نہیں ہوتی ۔
ذیابیطس قابل علاج ہے : طبی سائنس میں اب تک ہونے والی تحقیق میں کچھ بھی ایسا سامنے نہیں آیا ہے جس میں ذیابیطس کے علاج کا کوئی سرا ملا ہو ، ایک بار اس مرض میںمبتلا ہونے کے باوجود غذا پر قابو رکھ کر اور ورزش کی مدد سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ڈاکٹر کی ہدایات پر مکمل طور پر عمل کر کے اور اس کے مشورے سے ذیابیطس کے مریض اس مرض کی لازمی ادویات سے بھی چھٹکارا پا سکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ذیابیطس کی مکمل مانیٹرنگ انتہائی ضروری ہے۔
ذیابیطس کے مریض میٹھا نہیں کھا سکتے : انسانی جسم کو نشاستے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی حال ذیابیطس میں مبتلا افراد کا بھی ہوتا ہے ، ہمارے جسم میںموجود تمام اعضاء گلو گوز کو توانائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ذیابیطس میں مبتلا افراد جب کبھی نشاستے والی غذائیں اور خصوصاً میٹھی اشیاء کھائیں تو ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ معالج کے تجویز کردہ ذیابیطس مینجمنٹ پلان سے تجاوز نہ کریں ۔
ذیابیطس کے مریض خون عطیہ نہیں کر سکتے : ذیابیطس میں مبتلا افراد کی اکثریت خون عطیہ کر سکتی ہے ، صرف ایک خاص قسم کی انسو لین استعمال کرنے والے مریض خون عطیہ نہیں کر سکتے جبکہ ان مریضوں میں سے وہ جو صحت مند ہیں اور ان کا وزن کم نہ ہو تو وہ خون عطیہ کر سکتے ہیں ۔
ذیابیطس کے مریضوں کو پھل نہیں کھانا چاہیے ، پھل ہماری غذا میں خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن پھل کھاتے وقت مقدار پر توجہ رہنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو بہت زیادہ پھل کھا لیا جائے اور شوگر لیول بڑھ جائے ۔
ذیابیطس کا مرض لا حق ہو گیا ، انسو لینس لینا ہو گی : ذیابیطس کا بہترین علاج انسو لینس ہی ہے لیکن یہ ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا مریضوں کے لیے ہے جبکہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریض مناسب غذا ، ورزش اور دیگر ادویات سے کنٹرول کی جا سکتی ہے ۔سب سے اہم ہے کہ طرز زندگی میں تبدیلی لائی جائے ، یعنی تمباکو نوشی کرتے ہیں تو اسے ترک کر دیا جائے اور با قاعدہ ورزش کو معمول بنا لیں ۔
ذیابیطس صرف بوڑھوں کا مرض ہے : یہ بات ماضی میں ایک حد تک درست تھی لیکن اب تو5 سال سے کم عمر بچے بھی ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہو رہے ہیں ،اب سے دو دہائی قبل تک اگر کسی نابالغ فرد میں اس مرض کی تشخیص ہوتی تھی تویہی خیال کیا جاتا تھا کہ اس کو ٹائپ ون ذیابیطس ہے جس کا علاج انسو لینس کے سوا کچھ ہی نہیں ۔لیکن یہ بیماری اب بچوںمیں بھی عام ہوتی جا رہی ہے اور اس سے بچوں کو بچانا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ان میں بلکہ اپنی بھی کھانے پینے کی اچھی عادات پروان چڑھائیں ، یعنی کمپیوٹر اور ٹی وی کے سامنے کم وقت ، فاسٹ فوڈ میں حتیٰ الامکان کمی اورجسمانی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جائے ۔
اوپر بیان کی گئی علامات جب مجھ میں ظاہر ہوئیں ساتھ میں وزن میں بھی تیزی سے کمی ہونے لگی ، بہت زیادہ خوشی ہوئی وزن پر قابو پانے کے لیے کئی جتن کیے تھے لیکن اب تو بنا کسی مشقت وزن از خود کم ہو رہا ہے ، کئی دوستوں نے ٹوکا کہ کیا ہو گیا وزن کیوں کم ہو رہا ہے پھر بھی احسا س نہیں ہوا کہ خطرے کی کوئی بات ہے اور جب یہ باتیں تواتر کے ساتھ ہونے لگیں تو خطرے کی گھنٹی بجی اور ٹیسٹ کرایا ۔ لیبارٹری ٹیسٹ نے ثابت کر دیا کہ میں ذیابیطس میں مبتلا ہو گیا ہوں ۔ رپورٹس ہاتھ میں تھیں لیکن یقین نہیں آ رہا تھا تو فوراً اپنے والد کا خیال آیا جب ان کو ڈاکٹر نے ذیابیطس کے خطرے سے آگاہ کیا تھا تو انہوں نے اس ڈاکٹر کے پاس جانا ہی چھوڑ دیا تھا ۔ بہر حال خود کو یقین دلایا کہ اس مرض میں مبتلا ہو گیا ہوں ۔ اب جب کسی کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کاسنتا ہوں تو اپنی ذہنی کیفیت یاد آ جاتی ہے ۔
جس کسی نے بھی میری اس بیماری کے بارے میں سنا اس نے حیرت اور افسوس کا ملا جلا اظہار کیا ، میرا صرف ایک ہی جواب تھا الحمد اللہ بیمار ہوں ، کیوں کہ بیماری تو زندہ لوگوں کو ہوتی ہے مردہ کسی مرض میں مبتلا نہیں ہوا کرتا۔ جب بیماری کا یقین ہو گیا تو سوچا اب اس کے ساتھ گزارا کرنا ہے ۔توکیوں نہ اس سے دوستی بھی کر لی جائے ۔ ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی ان کو رپورٹ دکھائی تو انہوں نے کہا کہ آپ کی عمر ایسی نہیں کہ آپ کو لازماً ادویات کی ضرورت پڑ ے ،آپ لائف اسٹائل اور کھانے پینے کی عادات و اطوار میں تبدیلی لا کر اس پر قابو پا سکتے ہیں اور اللہ کا فضل ہے صحت بہت بہتر ہے ۔
اب ذرا اس بیماری کے فائدے بھی بتا دوں ، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس بیماری میں مبتلا ہونا اچھی بات ہے بلکہ اچھائیوں پر نظر ڈالیں تو مایوسی اور پریشانی باقی نہیں رہتی کیوں کہ یہ بالکل واضح ہے کہ اس بیماری سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے ۔ ڈاکٹر نے ایک بات کہی تھی کہ آپ ذیابیطس کے مریض ہیں تو اب آپ صرف اچھا اچھا ہی کھائیں گے ۔ زندگی میں جوالا بلا کھانا تھا کھا لیا لیکن مجھے یقین ہے اب آپ صحت بخش غذائیں کھایا کریں گے اور واقعی ہوا بھی کچھ ایسا ہی ۔ چائے پینے کا شروع ہی سے شوق نہیں تو ساری توجہ سافٹ ڈرنکس پر مرکو زرہتی تھی لیکن اب اس پر95 فیصد تک کمی آ چکی ہے ۔ اس بیماری کا دوسرا مثبت پہلو یہ ہے دوست احباب ہر موقع پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس توجہ میں ترس کا عنصر نہیں ہوتا ۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ بڑے لوگوںکی بیماری ہے تو پھر سمجھ لیں آپ بیٹھے بٹھائے ’’بڑے‘‘ ہو گئے ۔