پاکستان بزنس کونسل کا حکومت پر پالیسی معاملات میں یوٹرنز لینے کا الزام

188

کراچی (اسٹاف رپورٹر )گزشتہ 18 ماہ کے دوران بجلی کی قیمتوں میں تقریباً 35 فیصد اضافے کے بعد حکومت اور ملک کے بڑے کاروباری اداروں کے درمیان سنگین چپقلش شروع ہوگئی ہے۔ملک کے ریونیو میں 18 فیصد حصص رکھنے والے پاکستان کے 82 بڑے بزنس ہاؤسز پر مشتمل تنظیم پاکستان بزنس کونسل نے حکومت پر پالیسی معاملات میں اچانک یوٹرنز لینے کا الزام لگایا کہ اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد اور ملک کی استعداد پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ اس سے قبل 400 ٹیکسٹائل یونٹس پر مشتمل آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن (اپٹما) نے حکومت کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ برآمدی صنعتوں کو مقررہ 7.5 پیسے فی یونٹ کی قیمت پر بجلی فراہم کرنے کے وعدے پر عمل نہیں کررہی۔دوسری جانب پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوئی سہولت واپس نہیں لی لیکن برآمدی شعبے کو سبسڈی بنیادی نرخوں کی حد تک دی گئی تھی اور دیگر چیزیں مثلاً سرچارجز وغیرہ صنعتوں کو ادا کرنے ہوں گے۔ڈویژن کے مطابق محدود بجٹ کے باعث بنیادی نرخ کے علاوہ اضافی لاگت کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ متعدد وزارتوں نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ تنازع اس وقت منظر عام پر آیا جب 13 جنوری کو پاور ڈویژن نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ہدایت کی تھی کہ 7.5 پیسے کے علاوہ بل میں تمام اضافی چارجز مثلاً مالی لاگت سرچارج، نیلم جہلم سرچارج، ٹیکسز فکسڈ سرچارج، چار ماہ بعد ہونے والا ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور ایندھن کی قیمتوں کا ایڈجسمنٹ شامل کردیے جائیں۔جس پر اپٹما نے وزیر توانائی عمر ایوب کو خط لکھ کر ان کی وزارت کی جانب سے 8 فروری 2019 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ای سی سی نے واضح کیا ہے کہ زیرو ریٹڈ صنعتوں کو 7.5 پیسے فی یونٹ ادا کرنے ہوں گی اور مذکورہ بالا دیگر چارجز اس صنعت پر لاگو نہیں ہوں گے لیکن یہ اس سبسڈی کا حصہ ہوں گے۔