معاشرہ اسلامی لیکن جمہوریت مغربی

842

اگرچہ کہ ہمارا معاشرہ نہ پورا اسلامی ہے اور نہ ہی پورا مغربی یہ دو رویہ سڑک کے درمیان گرین بیلٹ کی مانند ہے جو دونوں طرف دیکھ تو سکتا ہے مگر کسی ایک میں ضم ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ امریکا اور برطانیہ میں دو جماعتی طریقہ کار بڑی کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں معاشرے سے ٹکرائو نہیں رکھتیں اور دونوں ہی کے نظریات، پالیسیاں، نقطہ نظر، اسلام اور دیگر مذاہب کے بارے میں یکساں سوچ، دنیا کے چھوٹے ملکوں کو اقتصادی طور پر غلام بنانے کی پالیسیاں، قدرتی وسائل سے مالا مال ایشیائی افریقی ممالک جو بظاہر غریب ممالک پر مشتمل ہیں پر من پسند افراد کو مسند اقتدار پر بٹھا دینا تاکہ ان کے مطلب کی پالیسیاں بنائی جاتی رہیں اور چھوٹے ممالک کے بد عنوان حکمران گوروں کو خوش کرنے کے لیے اپنی اقوام کو گوری سازشوں سے آگاہ نہ ہونے دیں یہ اور ایسی اندرونی و بیرونی پالیسیاں یکساں ہی ہوتی ہیں، مثال کے طور پر اگر ایک پارٹی نے افغانستان پر بلاجواز 30 سال تک جنگ مسلط رکھی تو اس دوران دونوں جماعتوں کی دو دو باریاں آچکی تھیں مگر بنیادی پالیسی پر کوئی اعتراض کسی نے کسی دوسرے پر نہیں کیا اسی طرح عراق کے تیل کے کنووں پر قبضہ جمانے کے لیے امریکا نے انتہائی لغو بے سروپا حقائق کے منافی اور بلا جواز، عذر لنگ پیش کر کے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے آستین کے سانپوں کی مدد سے بھر پور حملہ کردیا کہ عراق کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا پھر اس کے بعد خود ہی امریکا نے اعتراف کر لیا کہ اس نے غلط اطلاعات کی بنیاد پر یہ انتہائی اقدام کیا۔ ایک ذرا سی غلطی تسلیم کرنے سے کیا عراقیوں کے لاکھوں شہید شہریوں کے گھر والوں کی داد رسی ہو سکتی ہے یا کھربوں ڈالر کے تیل کے کنویں اور کھربوں ڈالر کی دیگر تنصیبات شہریوں کے مکانات کے نقصانات کا ازالہ ہو سکے گا؟ مگر نہ تو دوسری پارٹی نے اس پر کوئی اعتراض کیا اور نا ہی دنیا بھر میں کسی ایک مغربی ملک نے امریکا کی ذرا سی بھی مذمت کی، کیونکہ دونوں پارٹیوں کی بنیادی پالیسیاں ایک ہی ہیں اس لیے کسی پر کسی کے اعتراض کا کوئی جواز نہیں۔ اور اگر اندرونی یعنی معاشرتی پالیسی کا ذکر کیا جائے تو دونوں کی پالیسیاں یکساں ہیں دونوں مادر پدر معاشرتی آزادی انسانی حقوق کی آڑ میں یک جاں دو قالب ہیں۔
ریپبلکن ہو یا ڈیموکریٹ یہ بس نام کے دو انتخابی نشان ہوتے ہیں درحقیقت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں دونوں میں سے کسی ایک میں بھی یہ جرات نہیں کہ وہ معاشرتی بگاڑ کی وجہ بننے والے قوانین پر نظرثانی ہی کرسکیں۔ مثال کے طور پر وہ اتنا سا بھی قانون ختم نہیں کرسکتے کہ والدین اولاد کو راہ راست پر لانے کے لیے کچھ سختی کرسکیں اور قانوناً ان کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ بچوں کو غلط کام سے روکنے کے لیے سختی سے کام لے سکیں اور بچوں کے ہاتھ میں والدین کی سختی پر پولیس کو بلا لینے کا اختیار ہی واپس لے سکے، یہی وہ بنیادی ’’فلسفہ‘‘ ہے جو بچوں کے حقوق کی آڑ میں امریکا میں نافذ ہے حالانکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک کم سن بچے کے ہاتھ میں پستول پکڑا دیا جائے اور اس سے یہ کہہ کر واپس نہ لیا جائے اس طرح اس کے حقوق پامال ہو سکتے ہیں تو یہ بچے کے ساتھ نہ ہمدردی ہے نہ محبت ہے اور نہ اس کے اتنے خطرناک حق کی پاسداری ہے بلکہ یہ اس کے ساتھ بدترین دشمنی اور اس کے زندہ رہنے کے ہی حق کے خلاف سازش ہی تصور کی جائے گی۔ اب جبکہ بچہ یہ دیکھتا ہے کہ اس پاس اتنا اختیار ہے کہ وہ اپنے والدین کو ذرا سی ڈانٹ کا ایک دو طمانچے پر پولیس کو بلا سکتا ہے تو وہ تو چونکہ معصوم ہوتا ہے مگر اس کو اس کی شدت اور نقصان کا اس وقت احساس ہوتا ہے جب وہ خود ماں یا باپ بنتا ہے۔ ریپبلکن ہو یا ڈیموکریٹ دونوں شراب پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتے جوا ہر دکان پر مشین کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے عورت مرد کی مکمل دسترس میں ہے اور ایسے ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جس سے اختلاط مرد وزن کو فروغ حاصل ہو جس کو نئے نئے خوشنما نام دیے جا رہے ہیں مگر بنیاد مقصد وہی اختلاط مرد وزن کو فروغ دینا اور سب سے بڑھ کر دونوں پارٹیوں میں اتنا دم خم نہیں کہ مغرب اور امریکا کے تباہی کے دہانے پر کھڑے معاشرے کی اصلاح کا ہی کوئی قانون متعارف کروادیں۔
مختصر یہ کہ جو جمہوری نظام مغرب نے اپنے معاشرے کی ہم آہنگی کی بنیاد پر تشکیل دیا ہے وہ وہاں تو کامیاب ہو سکتا ہے مگر ایسا نظام اسلامی معاشرے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ عوام کی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ سیاسی نظام وضع نہ کیا جائے یہی وجہ ہے کہ اب تیسری قوت کو بتدریج آگے لایا جا رہا ہے لیکن یہ سب سیکولر ذہن کے سیاستدان ہیں جن کا نظام اسلام کے نفاذ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور یہی اس نظام کے ناکام ہونے کی بنیادی وجہ ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ 98 فی صد مسلمانوں کے ملک کی پارلیمنٹ خالصتاً سیکولر سیاستدانوں پر مشتمل ہو اور آٹے میں نمک سے بھی کم تعداد میں چند ایک مذہبی افراد رکن پارلیمنٹ ہوں اب ظاہر ہے یہ نظام اس قوم نے تو تشکیل نہیں دیا بلکہ ان کو اس نظام کی طرف دھکا ضرور دیا گیا اب یہ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں بلکہ تینوں میں سے کسی ایک کو ووٹ نہ دیں تو ان کا متبادل بھی تو کوئی نہیں یہ باتین سینہ گزٹ کے طور پر پھیلائی جاتی ہیں تاکہ ایک عام ووٹر کی ذہن سازی ہو سکے اور وہ انہیں سیکولر سیاستدانوں کے گرداب میں پھنسا رہے۔ اس کام کے لیے میڈیا کو جس ظالمانہ طریقے سے استعمال کیا گیا ہے وہ 22 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے کہ وہ کیبل اور ٹی وی کا ٹیکس بھی دیں اور ان کو مجبور کیا جائے کہ جن کو مقتدر قوتیں سنانا چاہتی ہیں انہیں کو سنتے رہیں۔ 22 کروڑ عوام کا یہ بھی حق ہے کہ دینی جماعتوں کو بھی میڈیا پر اتنا ہی وقت ملے جتنا کہ سیکولر سیاستدانوں تجزیہ نگاروں کو دیا جاتا ہے۔
حد ہوگئی ہے کہ سیکولر سیاستدان اور تجزیہ نگار کھلے عام اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کرنے لگے ہیں جو نہ صرف آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دینی جذبات و احساسات سے کھلواڑ کے مترادف ہے جس کی ان مغرب اور اسرائیل پرست عناصر کو کسی طور پر اجازت نہیں دی جاسکتی۔
(جاری ہے)
کم و بیش چار دہائیوں سے ایک ہی طرح کے افراد پارلیمنٹ کا حصہ بنتے رہے ہیں اور ایک کے بعد دوسرا وہی بیانات دیتا نظر آتا ہے گویا کوئی اسکرپٹ لکھا ہوا ہے کہ جب ایک سیکولر پارٹی حکومت میں آئے تو سب سے پہلے بیان یہ دے کہ ’’خزانہ خالی ہے‘‘ لیکن اس سے کوئی یہ پوچھنے والا نہ ہو کہ اس کے اللے تللوں کے لیے خزانہ کیسے بھر جاتا ہے چند ماہ بعد وہ بھی وہی کچھ کرنے لگ جاتے ہیں جو ان کے پش رو کرکے جا چکے ہوتے ہیں، جس طرح ان کے پیش رو بدعنوانی کے نئے نئے باب رقم کرکے جا چکے ہوتے ہیں ان پر وہ حکومت میں بیٹھ کر تنقید کے نشتر برساتے رہیں لیکن اصلاح کی کوشش نہ کریں اسی طرح کھاپی کر اپنا وقت پورا کریں اور پھر حزب اختلاف میں بیٹھنے کی تیاری کریں پھر جب دوسری سیکولر پارٹی آتی ہے تو وہ جانے والی حکومت کی بدعنوانیوں اور لوٹ مار کی داستانیں قوم کو سنانے لگ جاتی ہے پھر وہی بیانیہ سامنے آتا ہے کہ خزانہ خالی ہے اور اس کے بعد چل سو چل کے مصداق وہ بھی اسی بدعنوانیوں اقربا پروریوں اور لوٹ مار میں لگ جاتی ہے اور پھر جب تیسری قوت برسر اقتدار لائی جاتی ہے وہ جانے والے کی بدعنوانیوں کے قصے کہانیاں سنانا شروع کردیتی ہے یہ چوہے بلی کا کھیل آخر کب تک کھیلا جاتا رہے گا۔ مغربی ملکوں اور امریکا تک میں بدعنوانیوں کے قصے سامنے آتے رہتے ہیں مگر ایک حد تک اور ان کے پالیسی سازوں نے اس میدان میں کمال مہارت سے قابو پایا ہے جو کم کم ہی نظر آتی ہیں، کیونکہ ان کے یہاں سزا اور احتساب کا موثر نظام موجود ہے اس لیے Impeachment کسی کی بھی ہو سکتی چاہے وہ امریکا کا طاقتور ترین صدر ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اپنے یہاں عدالتی نظام کو مضبوط کیا ہے اگرچہ کہ مسلمانوں کے خلاف ان کی عدالتوں میں بھی تعصب نظر آتا ہے جس کی روز روشن کی طرح عیاں مثال ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہے کہ ناکردہ گناہ کی پاداشت میں ان کو 86 برس قید کی سزا سنا دی گئی جبکہ دوسری طرف ثابت شدہ مجرم جاسوس بھارت کا کلبھوشن یادیو ہے جو رنگے ہاتھوں ایرانی پاسپورٹ کے ساتھ پاکستان کے صوبے بلوچستان سے پکڑا گیا تھا اور جس کو سزائے موت بھی سنائی جا چکی ہے مگر عالمی عدالت نے اس کے ثابت شدہ جرائم سے صرف نظر کرتے ہوئے پاکستانی حکام کو سزائے موت پر عملدرامد سے نہ صرف روک دیا بلکہ اس کو سفارتی ملاقاتوں کا بھی حق دلوادیا۔
یہ دو مثالیں اس لیے دی گئی ہیں کہ سمجھا جا سکے کہ ان دونوں معاملات پر سارے سیکولر ایک پیج پر ہیں کراچی سے لیکر پشاور اور خنجراب تک سب کی زبانوں کو تالے لگے ہوئے ہیں کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ عوامی امنگوں اور احساسات سے عاری پالیسیاں بنائی جارہی ہیں جو سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی غیر مقبول ہو جاتی ہیں۔ آنے والی سیکولر حکومت جانے والی سیکولر حکومت سے بدتر پالیسیاں بناتی ہے مگر دوسری سیکولر جماعت ان اقدامات کو ختم نہیں کرتی یا نہیں کر سکتی جس سے بگاڑ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس بات کو تھوڑا آسان کرکے ایسے سمجھا جا سکتا ہے جس فیصلے اور پالیسی کے پیچھے مغرب کی منشا شامل ہوتی ہے اور جو مغرب کی آشیرواد سے بنائی جاتی ہیں بلکہ ان کے احکامات کی روشنی میں بنائی جاتی ہیں ان کو درست کرنے اور ختم کرنے کی آنے والی سیکولر حکومت کبھی کوشش نہیں کرتی بلکہ مغرب نے آنے والی حکومت کے لیے نئی فائل تیار کر رکھی ہوتی ہے جس پر عملدرامد کی یقین دہانی کے بعد ہی اس کو حکومت مل سکتی ہے۔ قوم اس غلط فہمی کا عرصہ دراز سے شکار چلی آ رہی ہے کہ موجودہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کو دوسری آنے والی حکومت ختم کر دے گی کیسے کرے گی وہ تو اسی بنیاد پر برسر اقتدار آئی ہے کہ وہ مغرب کی دی ہوئی عوام دشمن پالیسیوں کو نہ صرف جاری رکھے گی بلکہ اس میں اضافہ ہی کرے گی عوام پھر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں یہ تو کچھ کر ہی نہیں رہی اور یہ عوام کے پیٹ سے روٹی اور جسم سے کپڑا تک نوچ لیا گیا ہے۔
اب آئیے ان غیر اسلامی اقدامات کی طرف جو اول روز سے اہداف رہے ہیں یعنی اسکولوں اور مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب اسکولوں کے نصاب سے آہستہ آہستہ اسلام اور پاکستان کے ابواب ختم کیے جا رہے ہیں یہاں تک کہ آج کے طالب علم کو تحریک پاکستان کی ابجد کا بھی پتا نہیں ہے جبکہ دوسری طرف مدارس کے نصاب پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے کہیں اس میں جہاد کے اسباق تو شامل نہیں ہیں کیونکہ جہاد کا دوسرا نام مغرب نے دہشت گردی رکھا ہوا ہے جو آہستہ آہستہ سرایت کرتا ہوا ہر اس پاکستانی تک پہنچ چکا ہے جو نماز روزے کی پابندی کے ساتھ یہ تمنا رکھتا ہے کہ اس ملک میں نظام اسلام کا نفاذ ہونا چاہیے۔ اہل بصیرت و عقل ودانش رکھنے والے اچھی طرح محسوس کر رہے ہیں کہ مغرب کا اگلا ہدف قانون ناموس رسالت ہے جس کو طرح طرح کے القاب پہنا کر اور مذہبی آزادی کی تحریک چلا کر اور قانون ناموس رسالت کے غلط استعمال جیسے توہین آمیز القابات سے ذہن سازی کی جا رہی ہے ان عقل کے اندھوں کو پورے آئین میں کوئی ایک قانون بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کے بارے میں وہ کہیں کہ فلاں قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے لیکن قانون ناموس رسالت کے لیے یہ زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد اس پر وار کرنا ہے جس کے لیے انہی سیکولر سیاستدانوں تجزیہ نگاروں اور نام نہاد زرد صحافت کے سرخیلوں کو آگے لگایا ہوا ہے لیکن ان کو معلوم ہے کہ فرزندان اسلام اور توحید و رسالت پر مر مٹنے والے 22 کروڑ عوام ان کا جینا حرام کردیں گے بس اسی خوف سے وہ مغرب کو گاہے گاہے آگاہ کرتے رہتے ہیں ابھی اس کام کے لیے فضا سازگار نہیں ہے۔
اگر 1973 کے آئین کی بات کی جائے تو اس کی تیاری بحث و مباحثہ اور حتمی منظوری میں دینی جماعتوں کا کلیدی کردار تھا جس میں مرحوم و مغفور مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر عبدالغفور قابل ذکر ہیں ان کے علاوہ دیگر اسلام پسند اراکین اسمبلی نے بھی بنیادی کردار ادا کیا تھا اس آئین کو اسلامی آئین کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ اس میں جو دو بنیادی شقیں ہیں یہ کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون اسلامی شریعت سے متصادم نہیں بنایا جاسکے گا اور دوسرے یہ کہ نبی کریمؐ کی ذات اقدس کی توہین پر سزائے موت دی جائے گی۔ اب دیکھا جائے تو صحیح معنوں میں 1973 کے آئین کا تحفظ پاکستانی عوام نے ہی کیا ہے اور کسی طالع آزما کو اس پر شب خون مارنے کی جرأت نہیں کرسنے دی لیکن پارلیمنٹ سے اسلامی دینی سیاسی جماعتوں کی بیدخلی سے اس کا اندیشہ ہو چلا ہے کہ کسی وقت بھی آئین میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ کردی جائے۔ اب بھی اگر آئین پاکستان کی پاسداری کرنی ہے اور اس کو حقیقی تحفظ فراہم کرنا ہے تو ایک خاطر خواہ تعداد میں دینی قوتوں کو پارلیمنٹ میں بھیجنا ضروری ہوگا۔
ملکی سیاست کو اگر گل و گلزار بنانا ہے تو پورے گلستان میں ایک ہی رنگ کے پھول نہیں لگائے جا سکتے اس میں ہر رنگ و بو کے گل کھلانے ہوںگے ویسے تو شاطروں نے پہلے ہی بہت گل کھلا دیے ہیں اور سیاست کے گلستان کو اجڑے دیار میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہے ہمارا کہنے کا مطلب ہے کہ صرف سیکولرز ہی کو اسمبلیوں میں پہنچنے کی راہ ہموار کرنا اور دینی جماعتوں کی راہیں مسدود کرنا نہ صرف جمہوریت کی روح کے منافی ہے بلکہ سیاست اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر روان دوان رکھنے میں بھی مانع ہوگی۔ اس مقصد کو پا لینے کے دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ موجودہ طریقہ انتخاب میں عوام کو کھل کر اس یقین کے ساتھ کہ اس کا ووٹ نہ چوری ہوگا نہ بیلٹ بکس چوری ہوگا نہ تبدیل ہوگا بلکہ اس کا ووٹ اپنی اہمیت کے ساتھ چنائو میں اپنا کردار ادا کرے گا اور دوسرا طریقہ متناسب نمائندگی کا ہے بائیو میٹرک سسٹم یا مینول طریقے سے ہی پارٹی کو یکمشت ووٹ ڈالنے کا طریقہ اختیار کیا جائے اور پورے ملک کے ووٹوں کو پارٹی کے لحاظ سے جمع کر لیا جائے پھر اسی تناسب سے پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں سیٹیں تفویض کر دی جائیں تاکہ ایک ایک ووٹ اپنا کردار ادا کر سکے۔
اقتدار سے باہر رہ کر بھی اپنے اقتدار کا سکہ جمائے رکھنے کی خواہش کبھی بھی ملک میں سیاسی معاشی معاشرتی اقتصادی استحکام آنے نہیں دے گی اور نہ ہی خود رو پودوں اور مشروم کی آبیاری سے گلستان سیاست کی بہاریں لوٹائی جا سکیں گی۔