جی ڈی پی کی شرح 2.1 فیصد تشویشناک ،مہنگائی اور بیروزگاری بڑھے گی،میاں زاہد حسین

272

کراچی(اسٹاف رپورٹر)آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ نے 2020 کے دوران پاکستان کی شرح نمو 2.1 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے جو تشویشناک ہے۔ ملکی شرح نمو کے متعلق اقوام متحدہ کا اندازہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں سے بھی کم ہے جو قابل غور ہے۔ میاں زاہد حسین نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ اصلاحات کے ذریعے معاشی زوال کو روکے یا کم ازکم اس کی رفتار ہی کم کر دے۔دسمبر 2018 سے معاشی زوال شروع ہو چکا ہے اور اس دوران سب سے زیادہ نقصان بڑی صنعتوں کو ہوا ہے جس میں ٹیکسٹائل سیکٹر قابل ذکر ہے جوزیرو ریٹنگ کے خاتمے سے شدید مالی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ آٹو موبائل انڈسٹری کی پیداوار میں 38 فیصد جبکہ کیمیکل کی صنعتی پیداوار میں ساڑھے پانچ فیصد کمی آئی ہے۔دیگر صنعتوں میں خوراک، مشروبات، تمباکو، پٹرولیم، ریفائنریز، فارما، آئرن ، اسٹیل اور الیکٹرانکس آئٹم شامل ہیں۔بڑی صنعتوں کے زوال سے ان سے منسلک درمیانی اور چھوٹی صنعتوں کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ انھیں خدمات فراہم کرنے والے ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں کو بھی نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں جن میں ریٹیل اور ہول سیل سیکٹر بھی شامل ہیں۔معاشی سست روی سے ایندھن کی کھپت میں 7فیصد کمی آئی ہے جس سے ٹرانسپورٹ سیکٹر کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے ۔بڑی صنعتوں کی حالت زار سے جی ڈی پی میں ڈیڑھ فیصد کمی متوقع ہے اس لیے اس شعبہ کی بحالی کے لیے اقدامات ضروری ہو گئے ہیں۔اس شعبہ کے زوال سے9 لاکھ نوکریاں متاثر ہوئی ہیں جبکہ ایف بی آر کے محاصل میں اس شعبہ کا حصہ 70 فیصد ہے جس میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔اس شعبہ کی مشکلات کے سبب ایف بی آر کو محاصل کا ہدف پورا کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی کے سبب اہم درآمدات میں بھی کمی آئی ہے جس سے خسارے میں ہونے والی کمی کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔